ملتان (سٹاف رپورٹر ) بہاا لدین زکریا یونیورسٹی ملتان کے 8 سالہ پرانے اخبار اشتہارات پر بھرتی کرنے اور پھر روزنامہ قوم کے توجہ دلانے اور ہا ئر ایجوکیشن کمیشن کو ان کے اپنے خطوط کو لاگو کروانے کے لیے جگانے کے بعد بہا الدین زکریا یونیورسٹی ملتان کی انتظامیہ کی جانب سے سلیکشن بورڈ ملتوی کرنے کے بعد اگلی سینڈیکیٹ میٹنگ میں ہائر ایجوکیشن کمیشن آف پاکستان کے کوالٹی اور سٹینڈرڈ کو پس پشت ڈالتے ہوئے سینڈیکیٹ میں موجود ہائر ایجوکیشن کمیشن آف پاکستان کے نمائندہ شاہزیب عباسی اور ہائر ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ پنجاب کی ایڈیشنل سیکرٹری زاہدہ اظہر کی سفارشات کو نہ مانتے ہوئے ضد لگا لی کہ وہ اپنا سلیکشن بورڈ ضرور منعقد کریں گے۔ تفصیل کے مطابق 28 فروری 2025 کو منعقد ہونے والی سینڈیکیٹ میٹنگ میں مقررہ عہدوں پر بھرتی کے عمل میں غیر معمولی تاخیر کے معاملے پر غور کیا گیا اور ایچ ای سی کے خط نمبر 10.01/2020/COORD/HEC/202 مورخہ 01.03.2024 اور 10.01/2020 COORD/HEC/424 مورخہ 21.05.2024 کو لاگو کرنے یا نہ کرنے کا معاملہ زیر بحث آیا۔ ایک مرتبہ پھر ہائر ایجوکیشن کمیشن آف پاکستان کے چیئرمین ڈاکٹر مختار احمد کی جانب سےہائر ایجوکیشن کمیشن آف پاکستان کے جاری کردہ تمام خطوط اور نوٹیفکیشنز کو یونیورسٹی کی جانب سے اختیار کرنے یا نا اختیار کرنے کے موقف پر وضاحت دی کہ ہائر ایجوکیشن کمیشن آف پاکستان کے اس طرح کے نوٹیفکیشنز کو اختیار نہیں بلکہ ہر صورت لاگو کرنا ہوتا ہے ۔مگر بہاالدین زکریا یونیورسٹی ملتان کی سینڈیکیٹ کی جانب سے پنجاب یونیورسٹی لاہور میں بھی اسی طرز کے سلیکشن بورڈ کے انعقاد کے حوالے سے ہائر ایجوکیشن کمیشن کی توجہ دلائی گئی کہ ہائر ایجوکیشن کمیشن آف پاکستان نے پنجاب یونیورسٹی لاہور کے پرانے اخبار اشتہارات پر سلیکشن بورڈ کی اجازت کیوں دی۔ اضافی چارج عارضی رجسٹرار اعجاز احمد نے کیس کا جائزہ پیش کیا جس میں یہ ذکر کیا گیا کہ ایچ ای سی نے 01.03.2024 کو ایک خط جاری کیا، جو تمام سرکاری و نجی اعلیٰ تعلیمی اداروں (HEIs) اور نیشنل ریسرچ سینٹر کو بھیجا گیا تاکہ اشتہار شدہ اسامیوں کے بھرتی کے عمل کو اشتہار کی تاریخ کے ایک سال کے اندر مکمل کیا جائے۔ خط میں مزید وضاحت کی گئی کہ جو اسامیوں کے اشتہار پہلے ہی جاری کیے جا چکے ہیں، ان کے حوالے سے ایچ ای سی کی سفارش ہے کہ وہ اسامیاں جو 01 مارچ 2022 سے پہلے مشتہر کی گئی تھیں، فوری طور پر واپس لے لی جائیںاور جو اس کے بعد مشتہر کی گئی ہیں، ان کا جائزہ لیا جائے اور اگر ضرورت ہو تو ان کے خلاف بھرتی کا عمل 30 جون 2024 تک مکمل کیا جائے۔ مزید یہ بھی واضح کیا گیا کہ اگر کسی سلیکشن بورڈ کا اجلاس مقررہ آخری تاریخ کے بعد ہوتا ہے تو اسے ایچ ای سی کی منظوری حاصل نہیں ہوگی۔ بعد میں 21.05.2024 کو جاری کردہ ایک اور خط میں کہا گیا کہ یونیورسٹی کو 31 اگست 2024 تک اپنی بھرتی کا عمل مکمل کرنا ہوگا۔ یہ بھی نشاندہی کی گئی کہ یونیورسٹی نے 2019 سے 2022 کے دوران شائع کیے گئے اشتہارات کے تحت سلیکشن بورڈ کا انعقاد نہیں کیا تھا۔ مزید یہ کہ کچھ امیدواروں کی پہلے ہی تقرری ہو چکی ہے، لہٰذا، دیگر امیدواروں کو ان ہی اشتہارات کے تحت مواقع سے روکنا امتیازی سلوک ہوگا۔ اور سفارش کردہ سلیکشن بورڈز میں سے ایک کو منسوخ کر دیا گیا کیونکہ مستقل وائس چانسلر معطل تھے اور ان کی جگہ قائم مقام وائس چانسلر کام کر رہے تھے۔ بعد میںچانسلر نے بھی ہدایت کی کہ جب تک مستقل وائس چانسلر نہیں آ جاتے، تب تک سلیکشن بورڈز کا انعقاد نہ کیا جائے۔ مستقل وائس چانسلر کی آمد پر، سلیکشن بورڈ 21.02.2025 کو منعقد کرنے کا شیڈول تھا کیونکہ مختلف عہدوں کے لیے درخواست دینے والے امیدوار اپنی ترقی کے حق کے منتظر تھے۔جہاں تک غیر ضروری ملازمتوں کی مدت (Redundancy Period) کا تعلق ہے، اس حوالے سے انہوں نے 23.01.2021 کو منعقدہ سنڈیکیٹ کے 1/2021 اجلاس میں کیے گئے پالیسی فیصلے کا حوالہ دیا، جس کے مطابق لیکچرر اور اسسٹنٹ پروفیسرز کے لیے یہ مدت درخواستوں کی وصولی کی آخری تاریخ سے تین سال مقرر کی گئی تھی، تاہم پروفیسرز اور ایسوسی ایٹ پروفیسرز کے لیے کوئی ملازمت کی مدت متعین نہیں کی گئی تھی۔ ہائر ایجوکیشن کمیشن آف پاکستان کے نمائندہ شاہزیب عباسی نے نشاندہی کی کہ یہ معاملہ ضمنی ایجنڈا آئٹمز میں شامل تھا، جن پر بحث نہیں ہونی چاہیے تھی۔ دوسری جانب، یونیورسٹی نے ایچ ای سی کو مشورے کے لیے پہلے ہی ایک خط لکھا تھا، لہٰذا یونیورسٹی کو خط کے جواب کا انتظار کرنا چاہیے۔ انہوں نے یہ بھی دہرایا کہ ایچ ای سی پہلے ہی اپنے فیصلے 01.03.2024 اور 21.05.2024 کے خطوط میں جاری کر چکا ہے۔ ہائر ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ پنجاب کی ایڈیشنل سیکرٹری زاہدہ اظہر، جو ایچ ای ڈی کی نامزد کردہ تھیں، نے ایچ ای سی کے فیصلے کی تائید کی۔ ڈاکٹر عامر شاہین رانجھا، جو محکمہ خزانہ کے ڈپٹی سیکرٹری اور بی زیڈ یو ایکٹ 1975 کے تحت نامزد کردہ تھے، نے بھی ایچ ای سی کے فیصلے کی حمایت کی، تاہم چونکہ بی زیڈ یو ایکٹ کے مطابق ایڈیشنل سیکرٹری سے کم درجے کا نامزد شخص سنڈیکیٹ اجلاس میں بطور رکن شرکت نہیں کر سکتا، لہٰذا وہ صرف رکن کی بجائے مبصر (Observer) کے طور پر اجلاس میں شریک تھے، ڈاکٹر آسیہ ذوالفقار نے نشاندہی کی کہ جب ایچ ای سی نے مذکورہ خطوط جاری کیے، تب یونیورسٹی کے وائس چانسلر معطل تھے اور قائم مقام وائس چانسلر اپنے فرائض سرانجام دے رہے تھے، جنہیں بورڈ اجلاس منعقد کرنے کی اجازت نہیں تھی۔ بعد ازاںپاکستان الیکشن کمیشن نے بھرتیوں پر پابندی عائد کر دی، لہٰذا یہ خطوط بی زیڈ یو پر لاگو نہیں ہو سکتے۔ مزید برآں، ان خطوط میں واضح طور پر بیان کیا گیا ہے کہ ایچ ای سی کا کردار Regulator کی بجائے ایک سہولت کار (Facilitator) کا ہے اس لیے بی زیڈ یو پر ان خطوط کو نافذ کرنے کی کوئی قانونی پابندی نہیں ہے۔ مزید یہ کہ پنجاب یونیورسٹی نے حالیہ دنوں میں زیرِ التوا اشتہارات کے لیے سلیکشن بورڈ کے اجلاس منعقد کیے ہیں، جس پر کسی نے سوال نہیں اٹھایا، لیکن بی زیڈ یو کے معاملے پر سوالات کھڑے کیے جا رہے ہیں۔ ڈاکٹر محمد ساجد طفیل نے ڈاکٹر آسیہ ذوالفقار کے تمام نکات کی تائید کی۔ مزید برآں، انہوں نے کہا کہ سنڈیکیٹ کا اگست 2024 کا اجلاس پہلے ہی یہ فیصلہ دے چکا ہے کہ پروفیسرز اور ایسوسی ایٹ پروفیسرز کے عہدے لازمی ہیں اور سنڈیکیٹ کے فیصلے پر نظر ثانی نہیں کی جا سکتی۔ اور سپریم کورٹ آف پاکستان کے احکامات اور ہائر ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ کی اپنی ہی ہدایات کے برعکس سید علی حیدر گیلانی ، 6 سال سے کنٹرولر کے اضافی چارج پر تعینات پروفیسر ڈاکٹر محمد امان اللہ جو کہ کنٹرولر بھی ہیں اور پروفیسر کی سیٹ پر سینڈیکیٹ ممبر بھی ہیں اور ڈاکٹر محمد عثمان سلیم نے بھی مذکورہ فیصلے کی تائید کی۔ چنانچہ بحث و مباحثے کے بعد، اکثریتی ووٹ سے یہ فیصلہ کیا گیا کہ 01.03.2024 اور 21.05.2024 کے ایچ ای سی کے خطوط بی زیڈ یو میں قابلِ عمل نہیں ہیں کیونکہ اس مدت میں چونکہ قائم مقام وائس چانسلر یونیورسٹی میں کام کر رہے تھے، اس لیے بورڈ کے اجلاس بلانا ناممکن تھا۔ شاہزیب عباسی جو ایچ ای سی کے نامزد کردہ تھے نے کہا کہ ایچ ای سی اپنے مذکورہ بالا خط میں دی گئی ہدایات پر قائم رہے گا اور انہوں نے اپنے اختلافی نوٹ کو ریکارڈ کیا۔ ایڈیشنل سیکرٹری ہائیر ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ زاہدہ اظہر نے ایچ ای سی کی رائے کی توثیق کی۔حیران کن طور پر سینڈیکیٹ ممبر ڈاکٹر آسیہ ذوالفقار کا موقف جس کی یونیورسٹی کے تمام ممبران بشمول سید علی حیدر گیلانی ، 6 سال سے کنٹرولر کے اضافی چارج پر تعینات پروفیسر ڈاکٹر محمد امان اللہ جو کہ کنٹرولر بھی ہیں اور پروفیسر کی سیٹ پر سینڈیکیٹ ممبر بھی ہیں اور ڈاکٹر محمد عثمان سلیم اور ڈاکٹر محمد ساجد طفیل نے حقیقت نا جانتے ہوئے بھی حمایت کی کہ جب ایچ ای سی کا لیٹر جاری ہوا یونیورسٹی میں کوئی مستقل وائس چانسلر موجود نہ تھے۔ یا معطل تھے کے برعکس ہائیر ایجوکیشن کمیشن آف پاکستان کا پہلا خط 1st مارچ 2022 کو جاری کیا گیا جبکہ مستقل وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر منصور اکبر کنڈی 2019 سے مارچ 2023 تک بہاؤ الدین زکریا یونیورسٹی ملتان میں تعینات رہے۔ چنانچہ فروری میں ملتوی ہونے والے سلیکشن بورڈ میں 2017 کے اخبار اشتہار کی ایک سیٹ، 2019 کی 5 سیٹیں، 2020 کی 14 سیٹیں، 2021 کی 65 سیٹیں اور 2022 کی 35 سیٹیں شامل ہیں۔ چنانچہ مستقل وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر منصور اکبر کنڈی کے دور 2019-2023 میں 2017، 2019,2020,2021 کی اسامیوں پر سلیکشن بورڈ پروفیسر ڈاکٹر منصور اکبر کنڈی کے مارچ 2023 تک منعقد نہ کروا سکنے پر مستقل وائس چانسلر نہ ہونے کا جواز دینا حقیقت کے بالکل بر خلاف ہے۔جہاں تک الیکشن کمیشن آف پاکستان کے تعیناتیوں پر پابندی کا تعلق ہے تو وہ پابندی اگست 2023 میں عائد کی گئی تھی۔ چنانچہ 2022 کے اخبار اشتہار کی اسامیاں تو اب بھی مکمل کی جا سکتی ہیں۔ مگر اس سے پرانے اخبار اشتہارات پر بھرتیوں کے جواز بالکل مناسب نہیں اور حقیقت کے بالکل بر خلاف ہیں۔ اور تیسرا جواز یہ کہ ایچ ای سی کا کردار ریگولیٹر کی بجائے سہولت کار کا ہے سمجھ سے بالاتر ہے کیونکہ ایچ ای سی ملک کی تمام یونیورسٹیوں کی ریگولیٹری اتھارٹی ہے اور پھر سینڈیکیٹ ممبر ڈاکٹر آسیہ ذوالفقار کا یہ کہنا کہ اس طرح کے خطوط کو لاگو کرنے کی کوئی پابندی نہیں اس بارے میں ایچ ای سی چئیرمین کا موقف پہلے ہی روزنامہ قوم شائع کر چکا ہے کہ ہائر ایجوکیشن کمیشن آف پاکستان کے خطوط کو اختیار کرنے کی بات نہیں بلکہ لازمی لاگو کرنا ہے۔ چنانچہ بی زیڈ یو کے عارضی قائم مقام رجسٹرار کا 6 ماہ پہلے تعینات ہونے والے وائس چانسلر ڈاکٹر محمد زبیر اقبال غوری کو قانون سے ہٹ کر رہنمائی کرنا بالکل غلط ہے۔ اس بارے میں 19 اپریل کو ضد لگا کر سلیکشن بورڈ منعقد کرنا ہائر ایجوکیشن کمیشن کی ہدایات کی کھلم کھلا خلاف ورزی اور ہائر ایجوکیشن کمیشن آف پاکستان کے وقار کو پس پشت ڈالنا سمجھ سے بالاتر ہے۔ اس حوالے سے چیئرمین ہا ئر ایجوکیشن کمیشن آف پاکستان ڈاکٹر مختار احمد پہلے ہی واضح کر چکے ہیں کہ وہ اس خلاف ورزی پر گورنر پنجاب کو لیٹر لکھیں گے۔
