ملتان(واثق رئوف)نیشنل ہائی ویز اتھارٹی ،لوگو فرینڈلی ہائی ویز، فرینڈلی ڈیپوٹیشنسٹ میں تبدیل ہو کر رہ گیا ہے۔مافیا ایکبار پھر کامیاب، آڈٹ پیراز ،میچنگ گرانٹ اور بدعنوانی کے حوالے سے اٹھنے والے اعتراضات و دیگر مسائل کے حل کے لئےگزشتہ روز وزارت مواصلات میں منعقد ہونے والا اجلاس ملتوی ہوگیا۔بتایا جاتا ہے کہ اس وقت این ایچ اے میں قومی وسائل مسافروں کے ٹیکس سے اکٹھی آمدن کا بے دریغ اور بغیر حساب استعمال کیا جا رہاہےجس پر مختلف سماجی سیاسی حلقوں اور خود این ایچ اے کے اندر سے مسلسل آوازیں بلند ہو رہی ہیں۔ ذرائع کے مطابق این ایچ اے کو1991ء نواز شریف کے پہلے دور میں ہائی ویز کے صوبائی حکومتی نظام کے متوازی ایک خودمختار ادارے کے طور پر قائم کیاگیاتھا۔اس کے ابتدائی ایکٹ میں 2024ء میں ترمیم کی گئی اس کی خود مختاری اور مالی خوشحالی کے لئے اس کی روڈز، موٹرویز کو استعمال کرنے والی کمرشل اور دیگر وہیکلز سے ٹول ٹیکس وصول کیا جاتا ہے۔این ایچ اے ایکٹ کے تحت وصول شدہ رقم صرف اور صرف اس کےروڈز ،موٹرویز کی تعمیر، مرمت، دیکھ بھال اور حفاظت کے سوا کسی دیگر امور میں استعمال نہیں کی جاسکتی اس لئے نیشنل ہائی ویز کو فرینڈلی ہائی ویز کا لوگو دیا گیا ہےتاہم اس کے برعکس این ایچ اے حکام کی طرف سے قواعد و ضوابط کے برعکس نیشنل ہائی ویز اینڈ موٹروے پولیس پر نہ صرف مسافروں کے ٹول ٹیکس کی مد میں وصول کی گئی رقم خرچ کی جا رہی ہے بلکہ اہم پراجیکٹس کی میچنگ گرانٹ کا بھی غلط استعمال کیاجا رہا ہے۔مالی سال 2023/24ء کے آڈٹ ریکارڈ میں اس امر کا انکشاف ہوا ہے کہ این ایچ اے اینڈ موٹروے پولیس نے ایک عرصہ سے پاکستان بھر میں1 کروڑ 86 لاکھ مربع فٹ کے قریب قومی شاہرات اتھارٹی کے تحت موجود زمینوں پر قبضہ کر رکھا ہے۔جس میں موٹروے پولیس کے دفاتر ان کے یوٹیلیٹی بلز دیگر معاملات بھی شامل ہیں۔ قبضہ کی گئی زمینوں، دفاتر ان کے اخراجات کےاگر کرائے کا تخمینہ لگایا جائے تو وہ 88 ارب روپے سالانہ کے قریب بنتا ہے جو کہ این ایچ اے کے ریونیو میں کمی کی ایک بڑی وجہ ہے جبکہ اس رقم نے روڈز نیٹ ورک کی بہتری میں استعمال ہونا تھا جو نہیں ہو رہی۔ آڈٹ پیراز رپورٹ کے مطابق صورتحال یہ ہے کہ این ایچ اے اور موٹروے پولیس کا کسی بھی ریجن یا مرکزی سطح پر این ایچ اے حکام کے ساتھ زمینوں، دفاتریا دیگر تنصیبات کا کوئی معاہدہ سرے سے موجود ہی نہیں ہے جبکہ پولیس حکام کے پاس کتنے دفاتر ،کتنے مربع فٹ زمین زیر استعمال ہے اس بابت بھی کوئی ریکارڈ موجود نہ ہے۔ اس صورتحال پر آڈٹ پیراز ،سماجی سیاسی اور خود این ایچ اے کے اندر سے اٹھنے والے اعتراضات کو دور کرنے کے لئےگزشتہ روز30 اپریل کو وفاقی وزیر برائے مواصلات کی زیر صدارت اجلاس منعقد ہوناتھاجس میں میچنگ گرانٹ اور دیگر اعتراضات کے حل کی درمیانی اور سب کے لئے قابل قبول راہ تلاش کی جانے تھی تاہم اجلاس نہ ہوسکا ۔ذرائع کا کہنا ہے کہ وفاقی وزیر برائے مواصلات علیم خان کو این ایچ اے کے انفراسٹرکچر اور اندرونی سسٹم کا قطعی کوئی تجربہ نہیں ہے۔تاہم وہ اس وقت ایسے افسران کے مشورہ پر این ایچ اے کو چلانے کی کاوش میں مصروف عمل ہیں جن پر کرپشن اور اخلاقی گراوٹ کے الزامات ہیں جبکہ نیب اور دیگر ایجنسیوں میں ان کے خلاف کیسز بھی چل رہے ہیں۔اہم سیٹوں پر بدعنوانی اخلاقی گراوٹ کے شکار افسران کی تعیناتیوں نے این ایچ اے کو سماجی سیاسی حلقوں میں تماشہ بنا دیا ہے۔ اسی طرح این ایچ اے کونسل کی از سر نو تشکیل کا عمل بھی تب ہوا جس میں منتخب چیئرمین اور دو اراکین کا ماسوائے اکائونٹس، آڈٹ یا بینکاری کےکبھی بھی روڈز نیٹ ورک، پبلک یا کمرشل ٹرانسپورٹ سے کوئی تعلق نہ رہا ہے یہ صورتحال ظاہرکرتی ہے کہ اس وقت قومی شاہرات اتھارٹی کس صورتحال سے دور چار ہے۔ اس اتھارٹی کو عوام کو بہترین سفری سہولیات، سروسز دینے والا ادارہ (فرینڈلی ہائی ویز)بنانےکےبجائے مالیاتی ادارہ بنا کر رکھ دیا گیا ہے۔صورتحال اس نہج تک خراب ہے کہ دیگر محکموں سے ڈیپوٹیشن پر این ایچ اے میں آئے افسران اتھارٹی کے سفید سیاہ کے مالک بنے ہوئے ہیں جس کاکوئی پرسان حال نہیں ہے، چیئرمین این ایچ اے، ممبر فنانس، ممبر امپلیمنٹیشن، ممبر ایڈمنسٹریشن، منیجر سپیشل انیشی ایٹو، جنرل منیجر ایڈمن، جنرل منیجر اسٹیبلشمنٹ، جنرل منیجر رائٹ آف وے، جنرل منیجر انٹرنل آڈٹ، ڈائریکٹر ٹو چیئرمین، ڈائریکٹر پرسنل، ڈائریکٹر اکائونٹس، پی پی پی ڈائریکٹر ریونیو lll، ڈائریکٹر سیکریٹریٹ، ڈائریکٹر آر ایم اے، ڈائریکٹر ریکروٹمنٹ سمیت تمام عہدے ڈیپوٹیشنسٹ کے پاس ہیں۔جبکہ ان میں سے کئی عہدے نظریہ ضرورت کے تحت بھی تخلیق شدہ ہیں۔این ایچ اے میں سیاسی بنیادوں پر بھرتی شدہ افسران کی فوج ظفر موج کو اکاموڈیٹ کرنے کے لئے آئے روز ٹال ٹیکس میں ہوشربا اضافہ کیاجارہاہے جبکہ ایک کثیر ٹول ٹیکس اکٹھاہونے کے باوجود روڈز مینٹینس پروگرام تسلی بخش نہیں۔ان حالات میں اپنے مسائل کے حل کے لئے این ایچ اے کے مستقل افسران وملازمین حصول انصاف کے لئے عدالت سے رجوع کرنے پر مجبور ہو کر رہ گئے ہیں۔اس صورتحال پر سیاسی، سماجی حلقوں نے وزیراعظم پاکستان ،این ایچ اے کے دیگر ذمہ داران سے نوٹس لینے کا مطالبہ کیا ہے۔
