اسلام آباد میں سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ کے اجلاس میں انکم ٹیکس ترمیمی بل 2025 پر غور مؤخر کر دیا گیا، جبکہ پاکستان کرپٹو کونسل سے متعلق بریفنگ وزیر خزانہ کی غیر موجودگی کے باعث ملتوی کر دی گئی۔
اجلاس کی صدارت سینیٹر سلیم مانڈوی والا نے کی، جس میں ایف بی آر نے سینیٹر ذیشان خانزادہ کی جانب سے پیش کردہ انکم ٹیکس ترمیمی بل پر اعتراضات اٹھائے۔ اس موقع پر سینیٹر انوشہ رحمٰن نے رائے دی کہ اگر بل میں بہتری کی گنجائش ہے تو اسے سراہا جانا چاہیے، نہ کہ روکا جائے۔ ان کا کہنا تھا کہ ایف بی آر کی جانب سے قانونی اعتراضات پر قانون ڈویژن سے رائے لی جانی چاہیے۔
سیکریٹری خزانہ امداد اللہ بوسال نے ایف بی آر کے مؤقف کی تائید کرتے ہوئے تجویز دی کہ بل کو آئندہ آنے والے بجٹ میں شامل کر لیا جائے۔ تاہم، سینیٹر انوشہ رحمٰن نے نشاندہی کی کہ سیکریٹری ریونیو کی غیر موجودگی میں سیکریٹری خزانہ کی یقین دہانی پر مکمل انحصار ممکن نہیں۔
ترمیمی بل میں اپیلیٹ ٹربیونلز میں حاضر سروس کے بجائے ریٹائرڈ افسران کی تعیناتی کی تجویز دی گئی ہے۔ سینیٹر محسن عزیز نے زور دیا کہ تمام ٹیکنیکل وزارتوں میں تکنیکی پس منظر رکھنے والے افراد کو سیکریٹری تعینات کیا جانا چاہیے، جیسا کہ وزارت آئی ٹی میں مثال قائم کی گئی ہے۔ سینیٹر انوشہ رحمٰن نے وزارت سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کی صورتحال پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ 18 میں سے 12 ڈیپارٹمنٹ بغیر کسی مؤثر ویلیو ایڈیشن کے کام کر رہے ہیں، اور کئی افسران ریٹائرمنٹ سے قبل ہی بعد از ریٹائرمنٹ عہدوں پر نظریں جمائے بیٹھے ہوتے ہیں۔
اس موقع پر سیکریٹری خزانہ نے کہا کہ تکنیکی وزارتوں میں ماہرین کا تقرر ضروری ہے، لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہر سیکریٹری لازمی ٹیکنیکل ماہر ہو۔ انہوں نے مزید کہا کہ وزارت خزانہ میں عموماً ٹیکنیکل بیک گراؤنڈ رکھنے والے وزراء رہے ہیں، تاہم معیشت کی حالت پر وہ تبصرہ نہیں کریں گے۔
اجلاس میں اداروں کی رائٹ سائزنگ پالیسی کا بھی تفصیلی جائزہ لیا گیا۔ سیکریٹری اسٹبلشمنٹ ڈویژن نے بتایا کہ ادارہ جاتی ڈھانچے میں بڑی تبدیلی کے بغیر بھی اخراجات میں کمی ممکن ہے۔ نیپرا، اوگرا سمیت دیگر ریگولیٹری ادارے متاثر نہیں ہوں گے، لیکن اضافی اخراجات کی چھان بین جاری ہے۔
سینیٹر شیری رحمٰن نے رائٹ سائزنگ کو ملازمین کے لیے تکلیف دہ قرار دیتے ہوئے مطالبہ کیا کہ ملازمین کو گولڈن ہینڈ شیک جیسا مناسب پیکیج فراہم کیا جائے۔ انہوں نے حکومت پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ایک جانب رائٹ سائزنگ کی جا رہی ہے جبکہ دوسری جانب کابینہ کا حجم بڑھا کر اخراجات میں اضافہ کیا جا رہا ہے۔
سیکریٹری اسٹبلشمنٹ نے بتایا کہ حکومت نے غیر ضروری بھرتیاں روک کر بچت کی ہے، اور اب خالی پوسٹوں پر ریٹائرڈ یا سرپلس ملازمین کو تعینات کرنے کی پالیسی پر غور جاری ہے۔ اس کے علاوہ، رائٹ سائزنگ سے آپریشنل اخراجات جیسے ٹرانسپورٹ اور یوٹیلیٹیز میں بھی کمی آئے گی۔
