ملتان (سٹاف رپورٹر) حکومت پنجاب کے عدم تعاون کے بعد بیوروکریسی، مختلف اضلاع کی انتظامیہ اور ذخیرہ اندوزوں کے غیر اعلانیہ اور مبینہ گٹھ جوڑ نے گندم کا ریٹ مزید گرا دیا اور ایک ہفتے کے اندر اندر 2200 روپے فی من پر بکنے والی گندم 1800 روپے فی من تک پہنچا دی گئی۔ جنوبی پنجاب کے بعض علاقوں میں گزشتہ روز گندم کا ریٹ 1900 روپےبعض علاقوں میں 1850 روپے جبکہ خانیوال کے علاقے تلمبہ اور عبدالحکیم میں گندم کا ریٹ 1800 روپے فی من پر آگیا۔ ذخیرہ اندوز کاشتکار کو اس سے زیادہ قیمت دینے کو تیار ہی نہیں۔ حیران کن امر یہ ہے کہ اس وقت پورے پنجاب میں رائس ملز مالکان بھی بینکوں کی لمٹ کے بل پر دھڑا دھڑ گندم خرید کر سٹور کر رہے ہیں اور رائس مافیا نے ریٹ مزید گرا دیا ہے۔ تمام تر وعدوں دعوئوں اور اعلانات کے باوجود حکومت پنجاب نے کاشتکار کے لیے کوئی بھی پالیسی مرتب نہیں کی اور جونہی اگلے تین سے چار ہفتوں میں صوبہ بھر کے کاشت کاروں کی گندم ان کے ہاتھوں سے نکل کر ذخیرہ اندوزوں کے پاس چلی جائے گی تو گندم کاریٹ خود بخود بڑھنا شروع ہو جائےگا۔ ذخیرہ اندوزوں کے بینکوں سے حاصل کیے گئے کھربوں روپے سے منافع کمانے کا عمل شروع ہو جائے گا۔ چھ ماہ بعد یہی گندم 3500 روپے فی من سے بھی کراس کر جائے گی اور بینکوں کو سود دے کر بھی ذخیرہ اندوز اربوں روپیہ کما جائیں گے۔ حکومت کی طرف سے ابھی تک صرف زبانی جمع خرچ سامنے آرہا ہے جب کہ گندم کی تاریخ خریداری پر مکمل پابندی کے بعد ایکسپورٹ پالیسی کا بھی اعلان دانستہ طور پر التوا میں رکھا جا رہا ہے۔
