پاکستان سپر لیگ، جسے ایک وقت میں ملکی کرکٹ کا سب سے روشن اور امید افزا منصوبہ سمجھا جاتا تھا، آج اپنے دسویں ایڈیشن کی دہلیز پر ایک غیر یقینی فضا میں داخل ہو رہا ہے۔ یہ وہ لیگ تھی جس نے ایک دہائی قبل نہ صرف پاکستانی کرکٹ کو ایک نئی جہت دی بلکہ بین الاقوامی سطح پر بھی اس کی پہچان بنائی۔ مگر بدقسمتی سے، اس بار لیگ کا آغاز مایوسیوں، تنقیدوں اور غیر یقینی توقعات کے سائے میں ہو رہا ہے۔
گزشتہ چند ماہ سے پاکستان کرکٹ کی مجموعی کارکردگی بدترین سطح پر پہنچی ہوئی ہے۔ چیمپئنز ٹرافی کی میزبانی ہو یا نیوزی لینڈ کے خلاف سیریز، قومی ٹیم مسلسل ناکامیوں کا شکار رہی ہے۔ کپتان محمد رضوان کا یہ کہنا کہ “ہم پی ایس ایل میں خود کو بہتر ثابت کریں گے”، خود ایک علامت ہے اس بات کی کہ قومی کرکٹ کس حد تک بے سمت ہو چکی ہے۔ پی ایس ایل جسے ایک وقت میں مستقبل کے ہیروز کی نرسری سمجھا جاتا تھا، اب خود اپنے وجود کے دفاع میں الجھی ہوئی ہے۔
اس بار پی ایس ایل میں نہ وہ عالمی ستارے موجود ہیں، نہ وہ جوش و خروش، اور نہ ہی کوئی ایسا انتظامی نقشہ جس سے یہ لیگ ایک عالمی برانڈ بن کر ابھر سکے۔ اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ پی ایس ایل کا شیڈول آئی پی ایل کے ساتھ متصادم ہے، جس کے باعث اعلیٰ معیار کے بین الاقوامی کھلاڑیوں کی شمولیت مشکل ہو گئی ہے۔ اس سیزن میں کئی غیر معروف یا آئی پی ایل ڈرافٹ سے باہر رہ جانے والے کھلاڑیوں کو شامل کیا گیا ہے، جن میں آسٹریلوی اوپنر ڈیوڈ وارنر جیسے کھلاڑی بھی ہیں جو اپنی بین الاقوامی ساکھ کے آخری ایام گزار رہے ہیں۔
مزید برآں، لیگ کی موجودہ حالت پر فرنچائز مالکان کے درمیان لفظی جنگ نے اس کی ساکھ کو مزید نقصان پہنچایا ہے۔ ملتان سلطانز کے مالک علی ترین کی طرف سے پی ایس ایل کو ’ویسا ہی پرانا‘ کہنے پر کراچی کنگز کے مالک سلمان اقبال کی تند و تیز ردِعمل نے یہ ظاہر کیا کہ لیگ کے اندرونی معاملات میں نہ کوئی ہم آہنگی ہے اور نہ ہی مستقبل کی کوئی مشترکہ حکمت عملی۔ اگر لیگ کے اسٹیک ہولڈرز ہی اس کے معیار اور ترقی پر متفق نہ ہوں تو پھر شائقین کرکٹ سے کیا توقع کی جائے؟
تاہم ان تمام تر مسائل کے باوجود، پی ایس ایل کو یکسر مسترد کرنا دانشمندی نہیں ہو گی۔ یہ وہی لیگ ہے جس نے بین الاقوامی کرکٹ کو ایک بار پھر پاکستان کی سرزمین پر واپس لانے میں کلیدی کردار ادا کیا تھا۔ لاکھ اختلافات اور تنقید کے باوجود، پی ایس ایل پاکستان کی سب سے بڑی اسپورٹس پراڈکٹ ہے۔ اس کی ہر گیند، ہر چھکا، اور ہر وکٹ شائقین کو لمحاتی خوشی فراہم کرتی ہے جس کی انہیں اس معاشی و سیاسی بے یقینی میں سخت ضرورت ہے۔
آج ضرورت اس امر کی ہے کہ پی ایس ایل کو محض ایک تجارتی میلہ سمجھنے کے بجائے قومی وقار کی علامت بنایا جائے۔ اس میں معیاری کرکٹ، نوجوان کھلاڑیوں کی تربیت، اور بہترین انتظامی شفافیت کو فروغ دیا جائے۔ اگر ہم واقعی چاہتے ہیں کہ پی ایس ایل ایک بین الاقوامی برانڈ بنے، تو ہمیں اس کی پلاننگ، مارکیٹنگ اور کھلاڑیوں کے انتخاب میں عالمی معیار کو مدنظر رکھنا ہو گا۔
دسویں ایڈیشن کی آمد پی ایس ایل کے لیے ایک موقع ہے کہ وہ اپنے بنیادی تصور کی طرف واپس لوٹے: یعنی پاکستان کے لیے مستقبل کے کرکٹرز کی تربیت گاہ۔ ہمیں ان غلطیوں سے سیکھنا ہو گا جنہوں نے لیگ کو اس حال تک پہنچایا۔ اگر ہم اب بھی خواب غفلت میں رہے، تو یہ قیمتی پلیٹ فارم بھی دیگر قومی اداروں کی طرح بدانتظامی اور بے مقصدیت کا شکار ہو جائے گا۔
خلاصہ یہ ہے کہ پی ایس ایل اب ایک موڑ پر کھڑی ہے۔ یا تو یہ ایک نئی بلندیوں کی طرف گامزن ہو سکتی ہے، یا پھر خود اپنی عظمت کا بوجھ نہ اٹھا پائے گی۔ اس کا دار و مدار اب اس بات پر ہے کہ پاکستان کرکٹ بورڈ، فرنچائز مالکان اور شائقین سب مل کر اس خواب کو دوبارہ تعبیر دینے میں کیا کردار ادا کرتے ہیں۔ اگر ہم پی ایس ایل کو سنوارنے میں کامیاب ہو گئے تو شاید یہی وہ کرن ہو جو پاکستان کرکٹ کی تاریک راہوں کو منور کر دے۔
پی ایس ایل کو نئی زندگی دینے کے لیے سب سے پہلے اس کے بنیادی مقاصد پر نظرثانی کرنا ہوگی۔ جب اس لیگ کا آغاز ہوا تو اس کا نصب العین تھا کہ نہ صرف پاکستان میں بین الاقوامی کرکٹ کو بحال کیا جائے بلکہ ایک ایسا پلیٹ فارم بھی فراہم کیا جائے جہاں ملک کے باصلاحیت نوجوان کھلاڑی اپنی صلاحیتوں کو منوا سکیں۔ آج جب ہم پیچھے مڑ کر دیکھتے ہیں تو اس خواب کی کچھ جھلکیاں تو ضرور نظر آتی ہیں، مثلاً حسن علی، شاداب خان، شاہین آفریدی اور محمد حارث جیسے کھلاڑیوں کا ابھرنا، لیکن مجموعی طور پر یہ سلسلہ رک سا گیا ہے۔
اس وقت لیگ کو سب سے زیادہ جس چیز کی ضرورت ہے وہ ہے تخلیقی سوچ اور انتظامی دیانت۔ فرنچائز مالکان کے درمیان تلخی اور باہمی عدم اعتماد اس بات کا ثبوت ہے کہ لیگ کے کمرشل پہلو نے کرکٹ کے اصل مقصد کو پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ یہ ایک لمحۂ فکریہ ہے کہ لیگ میں ہونے والی پیش رفت یا تنزلی پر تبادلہ خیال اب کھلاڑیوں یا کوچز کے بجائے کاروباری شخصیات کے درمیان ہو رہا ہے۔ اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ کھیل کے میدان سے زیادہ دباؤ اب بورڈ رومز میں پایا جاتا ہے۔
اس کے ساتھ ساتھ ہمیں یہ بھی تسلیم کرنا ہو گا کہ اگر پی ایس ایل کا بین الاقوامی وقار بلند کرنا ہے تو اس کے انعقاد کے لیے ایسا وقت منتخب کرنا ہو گا جو دنیا کی دیگر بڑی لیگز، خاص طور پر آئی پی ایل، سے متصادم نہ ہو۔ پاکستان کرکٹ بورڈ کو چاہیے کہ وہ ایک ایسے کیلنڈر کا انتخاب کرے جو غیر ملکی کھلاڑیوں کی شمولیت کو ممکن بنائے اور شائقین کو بہترین کرکٹ دیکھنے کا موقع فراہم کرے۔ اس کے بغیر یہ لیگ نہ تو عالمی سطح پر مقبول ہو سکتی ہے اور نہ ہی مقامی سطح پر اپنے معیار کو برقرار رکھ سکتی ہے۔
ایک اور پہلو جو قابل توجہ ہے وہ یہ ہے کہ پی ایس ایل کو صرف بڑے شہروں تک محدود رکھنے کے بجائے چھوٹے شہروں اور دیہی علاقوں میں بھی لے جایا جائے۔ یہ اقدام نہ صرف لیگ کو وسیع تر عوامی پذیرائی دے گا بلکہ ملک بھر سے کرکٹ کے نایاب ہیرے دریافت کرنے میں بھی مددگار ثابت ہوگا۔ گراؤنڈز کی حالت بہتر بنانا، نشریاتی معیار میں جدت لانا، اور کرکٹ کے ساتھ تفریح کو ہم آہنگ کرنا وہ اقدامات ہیں جو اس لیگ کو دوبارہ عوام کی توجہ کا مرکز بنا سکتے ہیں۔
علاوہ ازیں، لیگ کے کھلاڑیوں کو قومی ٹیم میں ترجیح دینے کے حوالے سے ایک واضح اور شفاف پالیسی مرتب کرنا بھی ناگزیر ہے۔ ایسا نہ ہو کہ محض ایک دو میچوں کی کارکردگی کی بنیاد پر کسی کو قومی ٹیم میں شامل کیا جائے اور پھر وہ بین الاقوامی سطح پر ناکام ہو کر واپس لوٹ آئے۔ پی ایس ایل کو ایک ایسی تجربہ گاہ بنایا جائے جہاں کھلاڑی مکمل طور پر تیار ہو کر ہی اگلے درجے میں قدم رکھیں۔
آخر میں، اس بات کو سمجھنا ضروری ہے کہ پی ایس ایل محض ایک کھیل نہیں بلکہ ایک قومی منصوبہ ہے، جو پاکستان کے نوجوانوں کے خوابوں، شائقین کی امیدوں اور ملک کی عالمی پہچان سے جڑا ہوا ہے۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ پی ایس ایل واقعی ایک ’برانڈ‘ بنے، تو ہمیں اسے کاروباری معاہدوں، سوشل میڈیا تنازعات، اور وقتی شہرت سے نکال کر ایک جامع، منظم اور دیانتدارانہ نظام میں ڈھالنا ہوگا۔
اب وقت ہے کہ تمام اسٹیک ہولڈرز — چاہے وہ کرکٹ بورڈ ہو، فرنچائزز، کھلاڑی یا عوام — سب مل کر اس لیگ کو اس کی اصل روح میں واپس لے آئیں۔ اگر ہم آج یہ عہد کر لیں کہ پی ایس ایل کو ایک مرتبہ پھر معیار، امید اور قومی فخر کا نشان بنانا ہے، تو یقیناً آنے والے برسوں میں یہ لیگ نہ صرف پاکستان کی کرکٹ بلکہ اس کی عالمی ساکھ کا بھی قیمتی سرمایہ ثابت ہو گی۔
