ملتان (خبرنگار) وائس چانسلر نشتر میڈیکل یونیورسٹی نے نشتر ہسپتال اور یونیورسٹی میں انتظامی بے ضابطگیوں سے ہونیوالی چوریوں کے اصل حقائق سامنے لانے اور شفاف انکوائری کیلئے اینٹی کرپشن ملتان سے مدد مانگ لی تفصیل کے مطابق نشتر میڈیکل یونیورسٹی اور نشتر ہسپتال ملتان میں حالیہ جاری کروڑوں روپوں سے ہونیوالی رینوویشن میں سنگین بد انتظامی کی پہلی کڑی سامنے آگئی ہے۔ نشتر میڈیکل یونیورسٹی کی وائس چانسلر مہناز خاکوانی نے اس کرپشن کو بے نقاب کرنے کیلئے اپنی کاوش کا برملا اظہارکرتے ہوئے ملتان اینٹی کرپشن کو اس معاملہ میں مداخلت کی دعوت دی ہے تاکہ اصل حقائق دنیا کے سامنے لائے جاسکیں۔یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ بنیادی طور پر اس معاملہ میں مداخلت کرنے کا پہلا حق نشتر ہسپتال کے میڈیکل سپر نٹنڈنٹ کا تھا۔تفصیل کے مطابق چند یوم قبل تھانہ کینٹ ملتان میں مقدمہ نمبری985/25 نشتر چیف سکیورٹی آفیسر ارشاد احمد کی مدعیت میں درج ہوا۔ ایف آئی آر میں بتایا گیا کہ چیف سکیورٹی آفیسر ارشاد احمد اور سکیورٹی منیجر کو مورخہ 12 اپریل 2025 کو ڈائریکڑ کیمپس کی جانب سے اطلاع دی گئی کہ حیات ظفر آڈیٹوریم میں سے سامان لوہے کی کرسیاں ، 10 ٹن کے سات عدد ائیر کنڈیشنرز ، 4 ٹن کا ایک ائیر کنڈیشنر اور 2 ٹن کا ایک ائیر کنڈیشنر ٹوٹل سامان مالیت تقریباً35لاکھ روپے چوری کرلیا گیا ہے۔ حیات ظفر آڈیٹوریم کا کیئر ٹیکر شمشاد رسول جو اناٹومی ڈیپارٹمنٹ نشتر میڈیکل یونیورسٹی کا ملازم ہے کو بلا کر پوچھ گچھ کی گئی تو شمشاد رسول نے روبرو گواہان سب انجنئیر سول فرحان محبوب ، سب انجینئر الیکٹریکل طلحہ رحمان NMU اپنی چوری کا اعتراف کرلیا اور اسکے بیان کی وڈیو ریکارڈنگ بھی موجود ہے۔مزید ڈیپارٹمنٹل انکوائری کمیٹی نے مورخہ 12 اپریل 2025 کو آفس آرڈر نمبر 7174- 82 NMU میں اعترافی بیان چوری سامان لکھ دیا ہے۔ اب اینٹی کرپشن ملتان کی زمہ داری ہے کہ وہ اس تفتیش کی کڑیاں کیسے ملاتی ہے کیونکہ یہ پینتیس لاکھ کی چوری تو محکمہ اینٹی کرپشن کیلئے پہلا اشارہ ہے کیونکہ اس سے پہلے بھی روزنامہ “قوم” نشتر ہسپتال میں مین ویوز پر جیسے ادویات کے سٹورز وغیرہ میں سی سی ٹی وی CCTV کیمروں کی مستقل طور سے ازخود خراب رہنا نشاندہی کرچکا ہے۔ اب یہ نشتر سکیورٹی کی ذمہ داری ہے کہ وہ CCTV کیمروں کی کارکردگی بہترین بنائیں۔ یہ CCTV کیمرے جان بوجھ کر خراب کردئیے جاتے ہیں تاکہ چوری کی وارداتوں میں کسی بھی قسم کی رخنہ اندازی نہ ہوسکے۔ کیونکہ اتنا بھاری سامان بغیر آشیرواد کیونکر نشتر ہسپتال سے باہر جاسکتا ہے۔ اینٹی کرپشن اپنی تفتیش کا رخ اس پینتیس لاکھ والی چوری سے بڑھا کر نشتر ہسپتال کے قیمتی سامان میں کروڑوں کی خردبرد تک بغیر کسی رکاوٹ کے لے جاسکتی ہے اسکے ساتھ اینٹی کرپشن ملتان نشتر میڈیکل ایمرجینسی ،لیبر ڈیپارٹمنٹ سمیت کم و بیش 20 وارڈز میں حالیہ ہونیوالی رینوویشن جس میں تمام وارڈز کا پرانا قیمتی سامان اتار کر نیا سامان لگایا جارہا ہے اس قیمتی سامان میں کروڑوں روپے کی دیار کی لکڑی کےبھاری دروازے ، کھڑکیاں اتار کرنئی ٹیکنالوجی کے ایلومینیم دروازے ، کھڑکیاں نصب کی جارہی ہیں۔ اس کے علاوہ الیکٹریکل اشیاء جن میں بجلی وائرنگ تنصیب ، ائیر کنڈیشنرز، قیمتی الیکٹرونکس اشیاء شامل ہیں تبدیل کردی گئی ہیں کا راز جان سکتی ہے۔ زرائع سے معلوم ہوا ہے کہ پراسرار طور سے قیمتی دیار کی لکڑی کے دروازے کھڑکیاں رینوویشن کرنے والے ٹھیکدار مال غنیمت سمجھ کر ساتھ لے گئے ہیں۔ جس میں ایک 4×7 کا بھاری دروازہ آجکل مارکیٹ کے ریٹ میں لاکھ روپے سے کم نہ ہوگا اب تمام وارڈز کے دروازے کھڑکیوں کا حساب لگا لیں کہ بات کہاں تک جاکر ختم ہوتی ہے۔ حالانکہ یہ گورنمنٹ پراپرٹی ہے اور اس قیمتی سرکاری املاک کو نشتر انتظامیہ کے مال گودام میں زخیرہ کرکے سالانہ آکشن سے بذریعہ نیلامی حکومت پنجاب کو کروڑوں روپے کا ریونیو مل سکتا تھا۔ مشاہدہ میں آیا ہے کہ نشتر ہسپتال کا سیوریج اور صاف پانی کی واٹر اسپلائی کی اپ گریڈیشن جو بہت ضروری تھی وہ نہیں ہوسکی۔ مریضوں اور لواحقین کیلئے اس موسم گرما میں صاف تازہ پانی کے فلٹر پلانٹس کی مختلف لوکیشنز پر تنصیب بھی قصہ پارینہ بن چکی ہے۔ مطلب جو کام کروائے جانے ضروری تھے اور پبلک ہیلتھ انڑیسٹ میں تھے نہ کروائے گئے اور جو کام غیر ضروری تھے مگر انتظامیہ انٹریسٹ میں تھے کروائے گئے مثلا دیار کی لکڑی کے سالہا سالوں پرانی لکڑی کے بھاری دروازے جو صرف پینٹ کروانے سے بالکل نئے ہوجاتے اور پھر سالہا سال کیلئے تازہ دم ہوجاتے کو ایلومینیم کے دروازے ، کھڑکیوں میں تبدیل کردیا جاتا ہے اور یہ ایلومیینیم کے دروازے جو مہنگے ہونے کیساتھ پائیداری میں کسی بھی طور پرانی دیار کی لکڑی کا مقابلہ نہیں کرسکتے کو متبادل بنایا گیا ہے۔ بہرکیف روزنامہ “قوم” کا کام صرف نشاندہی کرنا ہے اور حکومت پنجاب کی توجہ مبذول کروانا ہے اور اداروں کی کارکردگی حکومت اور عوام کے سامنے پیش کرنا ہے۔
