آج کی تاریخ

نئی عالمی تجارتی جنگ

کبھی آپ نے شطرنج کے ایسے کھیل کا تصور کیا ہے جہاں دونوں کھلاڑی ایک دوسرے کو مات دینے کے لیے ہر چال نہایت سوچ سمجھ کر چل رہے ہوں؟ آج کی عالمی معیشت میں چین اور امریکہ کچھ ایسا ہی کر رہے ہیں۔ فرق صرف یہ ہے کہ یہ شطرنج پیادوں سے نہیں بلکہ بڑی بڑی ٹیکنالوجی کمپنیوں، تجارتی قوانین اور پابندیوں سے کھیلی جا رہی ہے۔ تازہ ترین چال میں چین نے امریکی ٹیک کمپنیوں پر اینٹی ٹرسٹ تحقیقات کا شکنجہ کسنا شروع کر دیا ہے، جس کا مقصد انہیں دباؤ میں لا کر اپنے حق میں رعایتیں لینا ہے۔یہ کوئی عام اقدام نہیں، بلکہ ایک بڑی معاشی حکمت عملی کا حصہ ہے۔ چین کی اس حکمت عملی کا مقصد امریکی کمپنیوں پر دباؤ ڈال کر انہیں تجارتی سودے بازی کا ہتھیار بنانا ہے۔ یعنی جب بھی واشنگٹن بیجنگ کے خلاف کوئی نیا اقتصادی حربہ آزمائے گا، چین اس کے جواب میں امریکی کمپنیوں کو الجھا کر اپنی پوزیشن مضبوط کرے گا۔چین نے اپنی طاقت کا بھرپور مظاہرہ کرتے ہوئے حالیہ دنوں میں گوگل، ایپل، این ویڈیا، براڈکام اور سائن آپسس جیسے بڑے امریکی اداروں کے خلاف تحقیقات کا آغاز کیا ہے۔ یہ کمپنیاں نہ صرف عالمی سطح پر نمایاں حیثیت رکھتی ہیں بلکہ چین میں بھی اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کر چکی ہیں۔ خاص طور پر سائن آپسس کی 35 ارب ڈالر مالیت کی مجوزہ خریداری چین کی منظوری کی منتظر ہے، اور بیجنگ اسے ایک سودے بازی کے کارڈ کے طور پر استعمال کر رہا ہے۔چین کے اس اقدام سے امریکی کمپنیوں کو کئی خطرات کا سامنا ہے۔ اگر یہ کمپنیاں چین میں مسلسل ضوابطی رکاوٹوں کا شکار رہیں، تو وہ یا تو یہاں سرمایہ کاری محدود کر دیں گی یا پھر اپنے کاروباری ماڈل پر نظرثانی کرنے پر مجبور ہو جائیں گی۔اس سے قبل 2018 میں جب کوالکوم نے ڈچ کمپنی این ایکس پی سیمی کنڈکٹرز کو خریدنے کی کوشش کی تھی، تو چین نے آخری وقت میں اس کی منظوری دینے سے انکار کر دیا، جس کے نتیجے میں یہ معاہدہ ختم ہو گیا۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آیا چین دوبارہ ایسی ہی حکمت عملی اپنائے گا اور امریکی کمپنیوں کے بڑے سودوں کو روکنے کے لیے مزید سخت اقدامات کرے گا؟یہاں ایک اور دلچسپ پہلو یہ ہے کہ چین خود بھی بڑی امریکی کمپنیوں پر انحصار کرتا ہے۔ ایپل کے فونز کی ایک بڑی تعداد چین میں تیار ہوتی ہے، گوگل کی خدمات وہاں کے ڈیجیٹل ماحولیاتی نظام کا حصہ ہیں، اور این ویڈیا کے چپس جدید ترین چینی ٹیکنالوجی میں استعمال کیے جاتے ہیں۔ تو پھر چین کو یہ کتنا فائدہ دے گا کہ وہ ان کمپنیوں کو اپنے ہی ملک میں الجھائے؟معاشی ماہرین کا کہنا ہے کہ چین کا یہ داؤ دو دھاری تلوار ثابت ہو سکتا ہے۔ اگر امریکی کمپنیاں دباؤ میں آ کر چین کی شرائط مان لیں، تو بیجنگ اپنی تجارتی مذاکراتی پوزیشن کو مضبوط کر لے گا۔ لیکن اگر امریکی حکومت اور بڑی کارپوریشنز اس چال کو سمجھ کر چین سے سرمایہ کاری کھینچنے لگیں، تو یہ چین کی اپنی معیشت کے لیے بھی نقصان دہ ہو سکتا ہے۔2019 میں جب گوگل نے ہواوے کے ساتھ کاروبار بند کر دیا تھا، تو چین نے اسے اپنی معاشی خودمختاری پر حملہ قرار دیا تھا۔ آج جب چین اینٹی ٹرسٹ قوانین کے ذریعے گوگل اور دیگر امریکی کمپنیوں کو ہدف بنا رہا ہے، تو امریکہ بھی جوابی وار کر سکتا ہے۔ پہلے ہی امریکی حکام ٹک ٹاک اور دیگر چینی کمپنیوں پر سخت نظر رکھے ہوئے ہیں۔یہ لڑائی صرف چین اور امریکہ تک محدود نہیں، بلکہ عالمی معیشت پر اس کے گہرے اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ جب واشنگٹن نے چینی مصنوعات پر اضافی 10 فیصد ٹیرف عائد کیا، تو اس کے فوراً بعد چین نے گوگل کے خلاف تحقیقات کا آغاز کر دیا۔ اسی طرح، جب امریکہ نے چینی چِپ انڈسٹری پر نئی پابندیاں لگائیں، تو چین نے این ویڈیا کو اپنے ریڈار پر رکھ لیا۔یہ واضح ہے کہ دونوں ممالک کسی بھی لمحے پیچھے ہٹنے کے لیے تیار نہیں۔ لیکن اصل سوال یہ ہے کہ اس تجارتی جنگ کا انجام کیا ہوگا؟ کیا یہ عالمی معیشت کو کسی بڑی بحران کی طرف دھکیل دے گی، یا دونوں ممالک کسی معاہدے پر پہنچ کر صورتحال کو سنبھال لیں گے؟یہ معاشی جنگ صرف بڑی کمپنیوں اور حکومتوں کے لیے ہی نہیں بلکہ عام شہریوں کے لیے بھی اہم ہے۔ اگر امریکی کمپنیاں چین میں مشکلات کا شکار ہوئیں، تو ان کے مصنوعات کی قیمتیں بڑھ سکتی ہیں، جس سے صارفین پر مہنگائی کا بوجھ پڑے گا۔ اسی طرح، اگر چینی کمپنیوں پر مزید پابندیاں لگیں، تو چینی معیشت میں بے روزگاری بڑھنے کا خدشہ ہے۔یہ جنگ محض اینٹی ٹرسٹ قوانین کی نہیں، بلکہ طاقت، معیشت اور سیاست کی جنگ ہے۔ چین اور امریکہ دونوں اپنی چالیں سوچ سمجھ کر چل رہے ہیں، اور دونوں کے پاس جیتنے کے مواقع بھی ہیں اور ہارنے کے خدشات بھی۔اب سوال یہ ہے کہ یہ شطرنج کا کھیل کب تک جاری رہے گا؟ کیا چین اپنی یہ پالیسی کامیابی سے آگے بڑھا سکے گا، یا امریکی کمپنیاں دباؤ کو نظرانداز کر کے نئی حکمت عملی اپنائیں گی؟ یہ ایک ایسا سوال ہے جس کا جواب وقت ہی دے گا، لیکن ایک بات طے ہے – یہ جنگ ابھی ختم نہیں ہوئی!

توانائی کا بحران

پاکستان کی توانائی کی کہانی ایک نہ ختم ہونے والا ڈرامہ بن چکی ہے، جس میں ہر نیا باب پہلے سے زیادہ پیچیدہ اور مضحکہ خیز ہوتا ہے۔ تازہ ترین قضیہ، جو حکومت اور صنعت کے درمیان ایک نئی کشمکش کو جنم دے چکا ہے، “کیپٹیو پاور پلانٹس کے لیے گیس کی قیمتوں میں اضافہ” ہے۔ حیرت کی بات نہیں کہ ایک بار پھر، توانائی اور پیٹرولیم ڈویژن آپس میں دست و گریبان ہیں۔حکومت، خاص طور پر بجلی کی وزارت اور وزارت خزانہ، بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کی شرائط کا سہارا لے کر صنعتوں کو قومی گرڈ سے منسلک کرنا چاہتی ہے۔ دوسری طرف، پیٹرولیم ڈویژن اور گیس کمپنیاں بضد ہیں کہ کیپٹیو پاور پلانٹس کو گیس کی فراہمی جاری رکھی جائے۔ یہ لڑائی کوئی نئی نہیں بلکہ سنہ 2020 میں بھی ایسا ہی ایک معرکہ لڑا گیا تھا، جب اس وقت کی حکومت نے صنعتوں کو گرڈ پر دھکیلنے کے لیے “وزن شدہ اوسط لاگت گیس” نافذ کرنے کی کوشش کی تھی۔ مگر صنعتی شعبے نے حکومت کے دعوے کو مسترد کر دیا اور دلیل دی کہ ان کے مشترکہ سائیکل بجلی گھر قومی گرڈ سے زیادہ مؤثر ہیں۔پاکستان میں توانائی کی پالیسی کا سب سے بڑا مسئلہ مسلسل یو ٹرن اور ادھوری منصوبہ بندی ہے۔ ایک طرف تو حکومت بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کے سامنے سر جھکائے ہوئے ہے اور دوسری طرف، صنعتی شعبہ اپنی بقا کی جنگ لڑ رہا ہے۔ برآمدی صنعتیں، جو کیپٹیو پاور پر انحصار کرتی ہیں، کہتی ہیں کہ اگر گیس مزید مہنگی ہوئی تو وہ عالمی منڈی میں مسابقت کھو دیں گی۔اسی کشمکش میں حکومت نے ایک چال چلی: اس نے فیصلہ کیا کہ 2025 تک کیپٹیو پاور پلانٹس کو گیس کی فراہمی مکمل بند کر دی جائے گی، تاکہ انہیں زبردستی گرڈ پر منتقل کیا جا سکے۔ مگر ایک چھوٹی سی الجھن رہ گئی — گرڈ کے پاس نہ تو اضافی بجلی موجود ہے اور نہ ہی ترسیلی نیٹ ورک اتنا مستحکم ہے کہ ان صنعتوں کا بوجھ برداشت کر سکے۔جب صنعتی شعبے نے شدید احتجاج کیا تو حکومت کو احساس ہوا کہ شاید جلد بازی کر دی گئی۔ جنوبی پاکستان میں کئی بڑی برآمدی صنعتیں گرڈ سے بالکل منسلک نہیں، اور اگر انہیں جبراً گرڈ پر منتقل کیا گیا تو انہیں اربوں روپے کی سرمایہ کاری کرنی پڑے گی، جو فوری طور پر ممکن نہیں۔ اور جب تک وہ گرڈ پر منتقل ہوں گی، ان کی پیداوار بند ہو چکی ہو گی، برآمدات ٹھپ ہو چکی ہوں گی، اور مزدور بے روزگار ہو چکے ہوں گے۔دوسری طرف، سوئی ناردرن اور سوئی سدرن جیسے گیس فراہم کرنے والے ادارے بھی سخت پریشان ہیں۔ کیپٹیو پاور پلانٹس ان کے سب سے زیادہ ادائیگی کرنے والے صارفین ہیں، اور ان کی بدولت گھریلو صارفین کو سبسڈی دی جاتی ہے۔ اگر یہ صنعتیں گرڈ پر چلی گئیں تو گیس کمپنیاں مالی بحران میں مبتلا ہو جائیں گی، اور نتیجتاً، حکومت کو سبسڈی کے لیے مزید قرض لینا پڑے گا۔یہ ایک ایسا گھن چکر ہے جس میں حکومت اپنی ہی پالیسیوں سے الجھ کر رہ گئی ہے۔جب حالات زیادہ بگڑنے لگے تو حکومت نے بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کے پاس ایک نئی تجویز رکھ دی۔ اصل منصوبے کو ترک کر کے متبادل حل کے طور پر گیس کی قیمتیں مزید بڑھانے کا فیصلہ کر لیا گیا۔ اب کیپٹیو پاور پلانٹس کو گیس تین ہزار روپے فی ایم ایم بی ٹی یو کی بجائے ساڑھے تین ہزار روپے میں ملے گی، اور مزید بیس فیصد اضافے کی منصوبہ بندی بھی کی جا چکی ہے۔مگر سوال یہ ہے کہ کیا اس پالیسی سے توانائی کا بحران ختم ہو جائے گا؟ یا پھر یہ صرف ایک اور وقتی حل ہوگا، جو کچھ مہینوں بعد ایک نئے بحران کو جنم دے گا؟حکومت یہ سوچ رہی تھی کہ گیس کی قیمت بڑھانے سے کیپٹیو پاور صارفین خود بخود گرڈ پر منتقل ہو جائیں گے۔ لیکن ہوا اس کے برعکس!جنوبی پاکستان کی صنعتیں گرڈ پر جانے کے بجائے دوسرے متبادل تلاش کر رہی ہیں۔ کچھ شمسی توانائی پر منتقل ہو رہی ہیں، کچھ حیاتیاتی ایندھن اور دیگر ذرائع آزما رہی ہیں تاکہ اپنی بجلی کی ضروریات خود پوری کر سکیں۔ جبکہ شمال میں صنعتیں کہہ رہی ہیں کہ گرڈ پر جانے کا کوئی فائدہ نہیں کیونکہ وہاں بجلی کی ترسیل ناقابل اعتبار ہے۔نتیجہ؟ حکومت کا خواب تھا کہ کیپٹیو پاور صارفین گرڈ پر آئیں گے، مگر وہ یا تو دوسرے ذرائع اپنا رہے ہیں یا گیس کی مہنگی قیمتوں کو برداشت کرنے پر مجبور ہو رہے ہیں۔پاکستان کی توانائی کی پالیسی کا سب سے بڑا مسئلہ ادھورا پن، بے ربطی، اور ایک دوسرے کے خلاف کام کرنے والے ادارے ہیں۔ ایک طرف توانائی کی وزارت ہے جو بجلی بیچنے کی کوشش کر رہی ہے، اور دوسری طرف پیٹرولیم ڈویژن ہے جو گیس کے صارفین کو بچانے میں لگا ہوا ہے۔ یہ ایک ایسی گتھی ہے جسے حکومت خود ہی الجھاتی جا رہی ہے۔پاکستان کو اس بحران سے نکلنے کے لیے ایک مربوط، جامع اور دور اندیش پالیسی کی ضرورت ہے، نہ کہ وہ پالیسی جو ہر چھ ماہ بعد بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کے اشارے پر بدلی جاتی رہے۔ جب تک توانائی کو ایک مکمل “سالمہ” کی طرح نہیں سمجھا جائے گا اور سب سے مؤثر استعمال کی طرف نہیں موڑا جائے گا، یہ مسئلہ کبھی حل نہیں ہوگا۔تب تک، یہ تماشا جاری رہے گا، حکومت کی ناکامیوں کی نئی کہانیاں لکھی جاتی رہیں گی، اور عوام اور صنعتیں اس نقصان کا بوجھ اٹھاتی رہیں گی۔

ماحولیاتی مذاق جاری

اقوامِ متحدہ نے دنیا کے ممالک کو ایک واضح ڈیڈلائن دی تھی کہ وہ اپنے کاربن کے اخراج میں کمی کے نئے اہداف جمع کرائیں، لیکن پیر آیا اور گزر گیا، اور بڑی طاقتوں نے ایسے لاپروائی برتی جیسے یہ کوئی عام کاغذی کارروائی ہو۔ 200 میں سے صرف 10 ممالک نے اپنی ذمہ داری پوری کی، اور وہ بھی وہی جو عالمی معیشت میں کوئی خاص اثر و رسوخ نہیں رکھتے۔ جو اصل بڑے کھلاڑی تھے، وہ غائب تھے، جیسے الیکشن کے بعد ووٹ مانگنے والے سیاستدان۔چین، بھارت، یورپی یونین، اور جی 20 کے دیگر ممالک نے اجتماعی طور پر اس معاملے کو وہی اہمیت دی جو ایک لاپرواہ طالبعلم اپنے ہوم ورک کو دیتا ہے۔ امریکہ نے تو بس دکھاوے کے لیے ایک پرانا ہدف جمع کروا دیا جو ڈونلڈ ٹرمپ کے دور میں طے کیا گیا تھا، یعنی یہ ویسے ہی سنجیدہ ہے جیسے کوئی شخص جیب میں جعلی کرنسی رکھ کر بینک میں قرض لینے پہنچ جائے۔یہ سب دیکھ کر حیرت نہیں ہوتی، کیونکہ موسمیاتی تبدیلی پر عالمی طاقتوں کا رویہ ہمیشہ یہی رہا ہے: زبانی جمع خرچ، سیاسی بیانات، اور کانفرنسوں میں لمبی لمبی تقریریں، لیکن عملی اقدامات صفر۔ جب درجہ حرارت بڑھ رہا ہو، سمندری طوفان بستیاں اجاڑ رہے ہوں، اور جنگلات آگ میں جل رہے ہوں، تب بھی یہ ممالک کسی نئے معاہدے کی ڈیڈلائن کو ٹالنے میں زیادہ دلچسپی رکھتے ہیں بجائے اس کے کہ واقعی کچھ کیا جائے۔اقوامِ متحدہ کے ماحولیاتی سربراہ نے اس بار کے اہداف کو “اس صدی کی سب سے اہم پالیسی دستاویزات” قرار دیا تھا، لیکن لگتا ہے کہ عالمی رہنماؤں کے نزدیک یہ صرف ایک اور بے معنی رپورٹ ہے جو کسی بند الماری میں پڑی رہے گی، جب تک کہ اگلا اجلاس نہ آجائے اور پھر سب ایک نئی ڈیڈلائن پر سر ہلانے لگیں۔سب سے زیادہ مضحکہ خیز پہلو یہ ہے کہ جو ممالک سب سے زیادہ آلودگی پھیلا رہے ہیں، وہی سب سے زیادہ غیر سنجیدہ بھی ہیں۔ چین، جو دنیا کا سب سے بڑا کاربن خارج کرنے والا ملک ہے، یورپی یونین، جو خود کو موسمیاتی پالیسیوں کا چیمپئن سمجھتی ہے، اور امریکہ، جو ہر عالمی مسئلے میں خود کو راہنما کے طور پر پیش کرتا ہے، سب نے اجتماعی طور پر خاموشی اختیار کر لی۔ گویا فطرت سے ہونے والی تباہی صرف غریب ممالک کے لیے خطرہ ہے، باقی دنیا کے پاس تو جیسے کوئی جادوئی ڈھال ہے جو انہیں موسمیاتی تبدیلی کے اثرات سے بچا لے گی۔یورپی یونین کی ترجمان نے معصومیت سے بیان دیا کہ “ہمارا ہدف COP30 اجلاس سے پہلے پیش کر دیا جائے گا”، یعنی ابھی مزید کئی مہینے انتظار کریں۔ چین کا کہنا ہے کہ وہ “2025 کے دوسرے نصف میں” نیا ہدف دے گا، جیسے گلیشیئرز نے کا عمل روک دیا ہو اور درجہ حرارت نے مزید بڑھنے سے منع کر دیا ہو۔اب جبکہ کوئی جرمانہ یا سزا نہیں، تو بڑے ممالک کے پاس سستی کرنے کی کھلی چھٹی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا کی سب سے بڑی معیشتیں ایک ایسی ڈیڈلائن کو مذاق سمجھ کر نظر انداز کر رہی ہیں، جس کا براہ راست اثر اربوں انسانوں کی زندگیوں پر پڑ رہا ہے۔ کوئی حیرانی کی بات نہیں کہ اگلے سال پھر یہی کہانی دہرائی جائے گی، نئی ڈیڈلائن آئے گی، نئے وعدے کیے جائیں گے، اور پھر سب کچھ ویسے ہی چھوڑ دیا جائے گا جیسے کچھ ہوا ہی نہیں۔یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ جب تک عالمی طاقتیں ماحولیاتی تباہی کو اپنی سیاسی چالوں کے بجائے ایک حقیقی خطرہ نہیں سمجھیں گی، تب تک یہ کھیل جاری رہے گا۔ لیکن افسوس، لگتا ہے کہ وہ دن شاید اس وقت آئے گا جب زمین واقعی رہنے کے قابل نہیں رہے گی۔تب تک، یہ “ماحولیاتی جنگ” کاغذی منصوبوں، بے نتیجہ اجلاسوں، اور پریس کانفرنسوں کے بے جان بیانات تک محدود رہے گی۔ ہر سال ایک نیا فورم ہوگا، ایک نئی ہنگامی اپیل” کی جائے گی، عالمی رہنما اکٹھے ہوں گے، تصویریں کھنچوائیں گے، ہاتھ ملائیں گے، اور پھر اگلے سال تک یہ فائلیں گرد میں دب جائیں گی۔اگر ان بڑے ممالک کے رہنماؤں سے پوچھا جائے کہ آپ نے کاربن کے اخراج میں کمی کے لیے کیا عملی قدم اٹھایا، تو جواب میں یا تو دھوکہ دہی پر مبنی “گرین پالیسیوں” کی فہرست ملے گی یا پھر خاموشی۔ ترقی یافتہ ممالک موسمیاتی مسائل کے حل کے نام پر غریب ممالک کو چندہ دینے کا اعلان تو کرتے ہیں، لیکن جب ان کے اپنے کاربن اخراج کو کم کرنے کی بات آتی ہے تو یا تو بہانے تلاش کیے جاتے ہیں یا پھر مستقبل کی کسی غیر معینہ تاریخ کا حوالہ دے کر بات ختم کر دی جاتی ہے۔حقیقت یہ ہے کہ یہ طاقتور ممالک نہ صرف اس بحران کے ذمہ دار ہیں بلکہ یہ اس کا حل تلاش کرنے میں بھی ناکام ہو چکے ہیں۔ امریکہ، چین، اور یورپ کا سب سے بڑا مسئلہ ماحولیاتی تبدیلی نہیں بلکہ اپنی معیشت کی حرارت کو کم کیے بغیر “گرین” دکھائی دینا ہے۔ یہ سب “ماحول دوست ترقی” کے نام پر ایسی پالیسیاں پیش کر رہے ہیں جو عملاً ماحول کو مزید برباد کرنے کے سوا کچھ نہیں کرتیں۔ بڑے ممالک نے ترقی پذیر دنیا کو “کاربن فٹ پرنٹ” کم کرنے کے لیے دباؤ ڈالنے کا ایک نیا کاروبار شروع کر دیا ہے، جبکہ خود ان کی فیکٹریاں، گاڑیاں، اور کوئلے سے چلنے والے پلانٹس پہلے سے زیادہ زہر اگل رہے ہیں۔یہ منافقت صرف پالیسیوں میں ہی نہیں، ان کے طرزِ زندگی میں بھی دیکھی جا سکتی ہے۔ وہی عالمی رہنما جو اجلاس میں کھڑے ہو کر “ماحولیاتی انقلاب” کے نعرے لگاتے ہیں، وہی اجلاس کے فوراً بعد نجی طیاروں میں بیٹھ کر واپس جاتے ہیں، وہی صنعتی کمپنیاں جو کاربن فٹ پرنٹ کم کرنے کے وعدے کرتی ہیں، وہ درحقیقت کاربن آف سیٹ اسکیموں کے نام پر ماحولیات کو مزید تباہ کرنے میں لگی ہوئی ہیں۔کیا واقعی ان سے یہ امید رکھی جائے کہ وہ دنیا کو بچائیں گے؟ یہ وہی لوگ ہیں جنہوں نے عالمی حدت پر قابو پانے کا وعدہ کیا تھا، مگر آج دنیا پہلے سے زیادہ گرم ہو چکی ہے۔ یہی وہ عالمی لیڈرشپ” ہے جس نے 2015 میں پیرس معاہدے پر دستخط کیے تھے، اور آج 2025 کے قریب آتے ہوئے بھی وہ اپنی ہی دی گئی ڈیڈلائن پر عمل کرنے میں ناکام نظر آتے ہیں۔ماحولیاتی ماہرین دہائیوں سے خبردار کر رہے ہیں کہ اگر کاربن کے اخراج کو 2030 تک نصف نہ کیا گیا تو موسمیاتی تباہی ناقابلِ واپسی حدوں کو چھو لے گی۔ لیکن موجودہ حالات کو دیکھ کر لگتا ہے کہ دنیا کی بڑی طاقتیں یا تو حقیقت سے مکمل طور پر غافل ہیں، یا پھر انہیں معلوم ہے کہ نقصان سب سے پہلے غریب ممالک کو ہوگا، اس لیے انہیں کوئی پروا نہیں۔یہ سب کچھ اسی وقت بدلے گا جب عام لوگ، جو اس بربادی کا خمیازہ بھگت رہے ہیں، ان حکومتوں سے سوال پوچھیں گے، جب وہ سڑکوں پر نکل کر ماحولیاتی انصاف کا مطالبہ کریں گے، جب وہ ان منافقانہ پالیسیوں کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیں گے۔ ورنہ یہ “ماحولیاتی مزاحیہ ڈرامہ” ہر سال یوں ہی چلتا رہے گا، اور ہم سب بس رپورٹس پڑھ کر سر ہلاتے رہیں گے، جب تک کہ زمین واقعی جل کر راکھ نہ بن جائے۔

شیئر کریں

:مزید خبریں