آج کی تاریخ

Champions Trophy 2025, Cricket Champions Trophy,

مزدور کاوظیفہ اور ارکان پنجاب اسمبلی کی تنخواہ میں اضافہ

پاکستان کی سیاسی اور معاشی حقیقتوں پر نظر ڈالیں تو ہم دیکھتے ہیں کہ ملک کی حکومتی پالیسیاں ہمیشہ ہی مختلف طبقوں کے مفادات کی بنیاد پر تشکیل پاتی ہیں، اور ان پالیسیوں میں اکثر عوام کے حقیقی مسائل اور ضروریات کو نظر انداز کیا جاتا ہے۔ حالیہ دنوں میں پنجاب اسمبلی میں ارکان اسمبلی اور وزرا کی تنخواہوں میں غیر معمولی اضافہ کیا گیا ہے، جس پر عوام اور اپوزیشن کی جانب سے شدید ردعمل سامنے آیا ہے۔ اسی دوران، حکومت نے مزدور کی کم از کم تنخواہ میں اضافہ کیا ہے، لیکن کیا یہ اضافہ واقعی ان کے معیار زندگی کو بہتر بنانے کے لیے کافی ہے؟
حال ہی میں پنجاب اسمبلی میں “عوامی نمائندگان کی تنخواہوں پر نظر ثانی پنجاب 2024کا بل منظور کیا گیا ہے، جس کے تحت ارکان اسمبلی اور صوبائی وزرا کی تنخواہوں میں کئی گنا اضافہ کیا گیا ہے۔ اس بل کے مطابق، اراکین پنجاب اسمبلی کی تنخواہ 76 ہزار روپے سے بڑھا کر 4 لاکھ روپے کر دی گئی ہے، صوبائی وزیروں کی تنخواہ 1 لاکھ روپے سے بڑھا کر 9 لاکھ 60 ہزار روپے کر دی گئی ہے، اسپیکر کی تنخواہ 1 لاکھ 25 ہزار روپے سے بڑھا کر 9 لاکھ 50 ہزار روپے کر دی گئی ہے، اور ڈپٹی اسپیکر کی تنخواہ 1 لاکھ 20 ہزار روپے سے بڑھا کر 7 لاکھ 75 ہزار روپے کر دی گئی ہے۔
اس بل کی منظوری کے بعد وزیر اعلیٰ کے مشیروں،سپیشل اسسٹنٹس اور ایڈوائزرز کی تنخواہیں بھی ایک لاکھ سے بڑھا کر 6 لاکھ 65 ہزار روپے کر دی گئی ہیں۔ اس فیصلے کے بعد عوام میں شدید غصہ پایا گیا ہے کیونکہ اس وقت ملک میں مہنگائی اور معاشی بحران اپنے عروج پر ہے، اور حکومت کی ترجیحات اس بحران سے عوام کو نکالنے کے بجائے سیاستدانوں کے مفاد میں دکھائی دیتی ہیں۔
مسلم لیگ ن کی حکومت نے اس اضافے کا دفاع کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ فیصلہ ارکان اسمبلی کی محنت اور عوامی خدمت کے عوض کیا گیا ہے تاکہ وہ اپنے فرائض بہتر طور پر ادا کر سکیں۔ تاہم، اپوزیشن کے رہنماؤں، بشمول اپوزیشن لیڈر احمد خان بھچر نے اس اضافے پر اعتراضات اٹھائے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ کیا یہ بل پارلیمانی قوانین ایکٹ 1972 کے مطابق ہے؟ جس پر اسپیکر پنجاب اسمبلی احمد خان کا کہنا تھا کہ یہ بل موجودہ قوانین کے مطابق بالکل درست ہے اور حکومت کا اچھا اقدام ہے۔
اگرچہ حکومتی موقف یہ ہے کہ ارکان اسمبلی کی تنخواہوں میں اضافہ ان کے کام کے معیار کو بہتر بنانے کے لیے کیا گیا ہے، لیکن عوام کے مطابق یہ فیصلہ عوامی مفاد کے برعکس ہے۔ پنجاب اسمبلی کے اراکین اور وزیروں کی تنخواہوں میں اتنے زیادہ اضافے کا مقصد واضح طور پر سیاستدانوں کے مفادات کا تحفظ کرنا ہے، جبکہ عوامی مسائل، جیسے کہ مہنگائی، صحت کی سہولتیں، تعلیم اور روزگار، نظر انداز کر دیے گئے ہیں۔
اس اضافے کے بعد عوام کا ردعمل بہت منفی رہا ہے، خاص طور پر وہ لوگ جو اپنے روزمرہ کے اخراجات پورے کرنے کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں۔ پاکستانی معاشرت میں جس طبقے کو سب سے زیادہ مشکلات کا سامنا ہے، وہ غریب اور متوسط طبقہ ہے۔ جب حکومت ایک طرف ارکان اسمبلی کی مراعات بڑھاتی ہے تو دوسری طرف وہ اس طبقے کی ضروریات کو نظر انداز کرتی ہے، جو معاشی بحران کا شکار ہے۔ اس فیصلے پر عوام نے شدید غصے کا اظہار کیا ہے اور اسے ایک سیاسی جماعت کے مفاد کے تحت کیا جانے والا فیصلہ قرار دیا ہے۔
پاکستان میں مزدور طبقہ ایک بہت بڑا حصہ ہے اور ان کی محنت سے ملک کی معیشت چلتی ہے۔ حکومت کی جانب سے مزدوروں کی کم از کم تنخواہ میں اضافہ ایک مثبت قدم ہو سکتا ہے، لیکن اس اضافے کو جب ہم موجودہ اقتصادی حالات اور مہنگائی کی شدت کے تناظر میں دیکھتے ہیں، تو یہ کم محسوس ہوتا ہے۔ حالیہ دنوں میں حکومت نے مزدوروں کی کم از کم تنخواہ 37,500 روپے مقرر کی ہے، جو کہ کچھ عرصہ پہلے 25,000 روپے تھی۔
پاکستان میں اس وقت مہنگائی کا طوفان آیا ہوا ہے اور اس کا اثر غریب طبقے پر سب سے زیادہ پڑ رہا ہے۔ بنیادی ضروریات جیسے کہ خوراک، رہائش، بجلی، پانی، اور گیس کی قیمتیں آسمان کو چھو رہی ہیں، اور ان کا بوجھ مزدور طبقے پر پڑ رہا ہے۔ اگرچہ حکومت نے مزدوروں کی کم از کم تنخواہ میں اضافہ کیا ہے، لیکن یہ اضافہ اس بڑھتی ہوئی مہنگائی کے مقابلے میں بے معنی ہے۔
مزدوروں کی تنخواہ 37,500 روپے ہونے کے باوجود، وہ اپنی بنیادی ضروریات کو پورا کرنے میں مشکل کا سامنا کرتے ہیں۔ ایک عام مزدور کو اپنے خاندان کی ضروریات پوری کرنے کے لیے اضافی کام کرنا پڑتا ہے، اور یہ کام عموماً غیر محفوظ ہوتا ہے۔ مزید برآں، زیادہ تر مزدوروں کو مستقل روزگار کی ضمانت نہیں ہوتی، اور وہ عارضی نوعیت کے کاموں پر منحصر ہیں، جس سے ان کی معاشی حالت مزید خراب ہوتی ہے۔
پاکستان میں مزدوروں کے حقوق کے تحفظ کے لیے کچھ قوانین موجود ہیں، لیکن ان قوانین کا نفاذ اور عمل درآمد میں شدید کمی ہے۔ حکومت اگر مزدوروں کے لیے مزید بہتر پالیسیاں بناتی تو ان کے معیار زندگی کو بہتر بنانے میں مدد مل سکتی تھی۔ مزدوروں کے لیے تعلیم، صحت، اور دیگر بنیادی سہولتوں کی فراہمی حکومت کی اولین ذمہ داری ہے، مگر اس پر حکومتی سطح پر کوئی قابل ذکر اقدامات نہیں کیے گئے ہیں۔
مسلم لیگ ن کی حکومت نے ہمیشہ عوامی فلاح کی بات کی ہے، لیکن عملی طور پر اس کی پالیسیاں اس وعدے سے ہم آہنگ نہیں ہیں۔ پنجاب اسمبلی کے اراکین کی تنخواہوں میں غیر معمولی اضافے کا فیصلہ ایک بار پھر یہ ثابت کرتا ہے کہ حکومت کی ترجیحات عوامی فلاح کے بجائے سیاستدانوں کے مفادات کو تحفظ دینا ہے۔ اس کا مقصد شاید یہ ہے کہ سیاستدانوں کی مراعات بڑھا کر ان کی وفاداریاں اور حمایت حاصل کی جا سکے، لیکن اس کا نتیجہ عوامی غم و غصے کی صورت میں نکلا ہے۔
حکومت کو چاہیے کہ وہ عوام کی فلاح کے لیے مزید اقدامات کرےاور سیاستدانوں کے مفادات کو نظر انداز کر کے عوام کے مسائل پر توجہ دے۔ مزدوروں کی حالت زار کو بہتر بنانے کے لیے حکومتی پالیسیوں میں اصلاحات کی ضرورت ہے، اور عوامی فلاحی منصوبوں پر زیادہ وسائل خرچ کرنے کی ضرورت ہے۔ حکومت کو یہ سمجھنا چاہیے کہ عوامی نمائندے جب عوام کی حالت بہتر بنانے کے بجائے اپنے مفادات کی حفاظت کریں گے، تو اس سے سیاسی عدم استحکام اور عوام کا اعتماد کم ہو گا۔
پاکستان میں ارکان پنجاب اسمبلی کی تنخواہوں میں اضافہ اور مزدوروں کی کم از کم تنخواہ میں اضافے کے فیصلے دونوں اہم ہیں، لیکن ان میں واضح تضاد موجود ہے۔ مسلم لیگ ن کی حکومت نے جہاں ارکان اسمبلی کی تنخواہوں میں اضافے کا فیصلہ کیا، وہیں مزدوروں کے معیار زندگی کو بہتر بنانے کے لیے اقدامات ناکافی ہیں۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ دونوں طبقات کے مفادات کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنی پالیسیاں مرتب کرے، تاکہ ملک میں معاشی مساوات اور سماجی انصاف کو فروغ دیا جا سکے۔
پاکستان میں عوام کی فلاح اور ترقی کے لیے ضروری ہے کہ حکومت اپنے فیصلوں میں توازن پیدا کرے، اور عوام کے مفاد کو مقدم رکھتے ہوئے پالیسیاں ترتیب دے۔ اس کے علاوہ، سیاسی جماعتوں کو عوام کی فلاحی پالیسیوں کے حوالے سے اپنی ترجیحات میں تبدیلی لانی ہوگی تاکہ وہ عوامی اعتماد دوبارہ حاصل کر سکیں۔

شیئر کریں

:مزید خبریں