آج کی تاریخ

غذا، غربت اور بیماری: ایک خاموش وبا

پاکستان جیسے ترقی پذیر ممالک میں صحت عامہ کے مسائل محض طبی نوعیت کے نہیں، بلکہ وہ غربت، محرومی اور سماجی ناہمواریوں سے جڑے ایک گہرے اور پیچیدہ نظام کا حصہ ہیں۔ غیر متعدی بیماریاں (NCDs) — جیسے ذیابطیس، دل کے امراض، بلڈ پریشر اور موٹاپا — جنہیں کبھی صرف امیروں کے عارضے سمجھا جاتا تھا، اب تیزی سے نچلے اور متوسط طبقات میں بھی سرایت کر چکی ہیں۔ ان بیماریوں کی جڑ، کئی صورتوں میں، ایک ہی محرک سے جڑی ہے: خوراک۔
یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ ہمارے یہاں غربت نہ صرف پیٹ کی بھوک لاتی ہے، بلکہ بدن کے اندر ایک خاموش تباہی کا آغاز بھی کر دیتی ہے۔ ارزاں مگر غذائیت سے خالی خوراک، مصنوعی اجزاء سے لبریز کھانے، اور مسلسل ذہنی دباؤ، کم آمدنی والے طبقے کو ایسی بیماریوں کی طرف دھکیل دیتے ہیں جو علاج سے زیادہ احتیاط اور آگاہی سے روکی جا سکتی ہیں۔ ایک مزدور یا کم آمدنی والا شہری، جس کے لیے دو وقت کی روٹی بھی ایک جدوجہد ہے، وہ کہاں سے غذائیت سے بھرپور، تازہ سبزیاں، پھل، اور صحت بخش خوراک خریدے گا؟
یہ وہ پہلو ہے جہاں غیر متعدی بیماریوں کا تعلق محض طرزِ زندگی سے نہیں، بلکہ معاشی ناہمواری سے بھی بنتا ہے۔ سادہ الفاظ میں کہا جائے تو، غریب آدمی کے پاس اکثر اتنے وسائل ہی نہیں ہوتے کہ وہ اپنے لیے صحت مند انتخاب کر سکے۔ دوسری جانب، وہ طبقہ جسے شعور اور وسائل حاصل ہیں، وہ بعض اوقات سہل پسندی، بازار کے چمکتے کھانوں، اور مصروفیت کے جواز میں غیر صحت مند زندگی کو اختیار کر لیتا ہے۔ نتیجتاً، ایک طرف غربت بیماری پیدا کرتی ہے، اور دوسری طرف بے اعتنائی اسے پھیلاتی ہے۔
ایسے میں جب کچھ مثالیں — جیسا کہ ابو نعمان کی — ہمارے سامنے آتی ہیں، جو صرف غذا اور طرزِ زندگی میں تبدیلی کے ذریعے اپنی صحت واپس حاصل کرتے ہیں، تو یہ ہمارے پورے نظام صحت پر سوال اٹھاتی ہیں۔ انفرادی سطح پر یہ کامیابیاں بے شک قابلِ ستائش ہیں، لیکن اس وقت تک یہ معاشرتی بہتری میں نہیں بدل سکتیں جب تک انہیں پالیسی سازی، آگاہی مہمات اور اجتماعی حکمتِ عملی کا حصہ نہ بنایا جائے۔
بدقسمتی سے، ہمارے نظامِ صحت میں ابھی تک خوراک کو بیماری کے مرکز کے طور پر تسلیم نہیں کیا گیا۔ ادویات تجویز کی جاتی ہیں، ٹیسٹ کروائے جاتے ہیں، مگر خوراک کے بارے میں بنیادی رہنمائی کا فقدان ہے۔ طبِ طرزِ زندگی کو نہ تو میڈیکل تعلیمی اداروں میں سنجیدگی سے شامل کیا گیا ہے، نہ ہی حکومت کی جانب سے اس شعبے کو فروغ دیا گیا ہے۔
اگر معاشرے میں ہر طبقے تک سستی اور دستیاب صحت بخش غذا پہنچانے کا نظام موجود نہ ہو، اگر گاؤں کے چھوٹے کلینک سے لے کر بڑے اسپتال تک، خوراک کو علاج کا بنیادی ستون نہ سمجھا جائے، اور اگر عوامی سطح پر خوراک، نیند، ورزش، سکون اور سماجی روابط کو ایک ہم آہنگ زندگی کا لازمی جزو نہ بنایا جائے، تو یہ وبا خاموشی سے پھیلتی رہے گی۔
غور کیا جائے تو یہ ساری صورتحال دراصل ایک خاموش وبا ہے — جو روزانہ ہزاروں افراد کو بیماری، معذوری اور موت کی طرف لے جا رہی ہے، مگر نہ اس کے خلاف کوئی ہنگامی اعلان ہوتا ہے، نہ کوئی قومی مہم چلتی ہے۔ اور سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ اس وبا کا سب سے بڑا شکار وہ طبقہ ہے جس کے پاس نہ وسائل ہیں، نہ علم، اور نہ ہی طبی سہولیات۔
لہٰذا اب وقت آ چکا ہے کہ ہم خوراک کو صرف ذائقے یا رسم و رواج کا حصہ نہ سمجھیں، بلکہ ایک عوامی صحت کی پالیسی کا مرکز بنائیں۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ صحت بخش خوراک کی دستیابی کو بنیادی انسانی حق تسلیم کرے۔ سکولوں میں متوازن غذا کی تعلیم، میڈیا میں آگاہی مہمات، ڈاکٹروں کی تربیت، اور دیہی و شہری علاقوں میں یکساں صحت مند غذا کی رسائی، وہ اقدامات ہیں جو اس خاموش وبا کو روکے بغیر ممکن نہیں۔
اگر ہم واقعی ایک صحت مند قوم چاہتے ہیں، تو ہمیں خوراک، غربت اور بیماری کے اس سہ رخی چکر کو توڑنا ہوگا۔ کیونکہ بیماری صرف جسم کی نہیں، ایک نظام کی علامت ہوتی ہے — اور اس کا علاج صرف دوا سے نہیں، شعور، انصاف اور عمل سے ہوتا ہے۔

شیئر کریں

:مزید خبریں