آج کی تاریخ

عورتوں کا عالمی دن گزر گیا، لیکن عورتوں کی جدوجہد باقی ہے

دنیا بھر میں عورتوں کا عالمی دن ہر سال 8 مارچ کو منایا جاتا ہے۔ پاکستان میں بھی اس دن کی مناسبت سے مختلف تقاریب ہوئیں، عورت مارچ نکالا گیا، سیمینارز اور مباحثے منعقد کیے گئے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا یہ تقریبات اور مارچ خواتین کے حقیقی مسائل حل کر سکے؟ کیا ان سرگرمیوں کے بعد محنت کش عورتوں، کسان عورتوں، گھریلو ملازماؤں اور بلوچ، سندھی، پشتون، گلگتی اور سرائیکی خواتین کی زندگیاں بدل گئی ہیں؟ یا پھر یہ سب ایک “تقریبی نعرہ بازی” بن کر رہ گیا ہے؟
سرمایہ داری، جاگیرداری، قبیل داری اور مذہبی رجعت پرستی کے چُنگل میں پھنسی ہوئی عورتیں آج بھی اسی ظلم، جبر اور استحصال کا سامنا کر رہی ہیں جو صدیوں سے جاری ہے۔ عورتوں کے عالمی دن کے بعد بھی حقیقت یہی ہے کہ اس استحصالی نظام میں محنت کش عورت کی ہڈیوں سے خون نچوڑا جا رہا ہے، اس کے جذبات اور خوابوں کو کچلا جا رہا ہے، اور اس کے وجود کو ایک “سستے مزدو’’” او‘‘بے وقعت جسم” میں قید کر دیا گیا ہے۔
سرمایہ داری نظام کا سب سے بڑا جھوٹ یہ ہے کہ اس نے عورت کو “آزادی” دی ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ سرمایہ دارانہ استحصال نے عورت کو ایک “مزدور جسم” بنا دیا ہے جو کم اجرت پر زیادہ کام کرنے پر مجبور ہے۔
شہری علاقوں میں فیکٹریوں میں کام کرنے والی عورتوں کو دیکھیے، وہ مشینوں کے سامنے گھنٹوں کھڑی رہتی ہیں، ان کی کمریں جھک جاتی ہیں، لیکن انہیں مرد مزدوروں سے کم اجرت دی جاتی ہے۔ یہی حال کھیتوں میں کام کرنے والی عورتوں کا ہے، وہ صبح سورج نکلنے سے پہلے کھیتوں میں جاتی ہیں اور شام گئے تک محنت کرتی ہیں، مگر انہیں ایک ’’خاندانی مزدور‘‘ سمجھ کر رسمی طور پر مزدور بھی نہیں گردانا جاتا۔
سرمایہ داری نے عورت کی محنت کو “سستی لیبر” بنا دیا ہے۔ دنیا بھر میں خواتین کو مردوں کے مقابلے میں کم تنخواہیں دی جاتی ہیں، انہیں زیادہ کام کرنے پر مجبور کیا جاتا ہے، اور انہیں ایسے شعبوں میں دھکیلا جاتا ہے جہاں ترقی کے مواقع نہ ہونے کے برابر ہوتے ہیں۔ فیکٹریوں میں، دفاتر میں، گھریلو ملازمت میں اور کھیتوں میں عورت ایک ’’سستے مزدو‘‘ کے طور پر استعمال ہو رہی ہے۔
لیکن اس کے ساتھ ساتھ سرمایہ داری نے عورت کے جسم کو بھی “مارکیٹ پروڈکٹ” بنا دیا ہے۔ اشتہارات میں، فیشن انڈسٹری میں، فلموں میں، اور سوشل میڈیا پر عورت کو ایک ایسی شے کے طور پر پیش کیا جاتا ہے جو “بیچی جا سکتی ہے، دیکھی جا سکتی ہے، اور استعمال کی جا سکتی ہے”۔ یہ دوہرے استحصال کی بدترین شکل ہے جہاں عورت نہ صرف بطور مزدور استعمال ہو رہی ہے بلکہ بطور جنسی شے بھی سرمایہ دارانہ منافع کے لیے استعمال کی جا رہی ہے۔
جاگیرداری اور قبیل داری: عورت کو غلام بنانے کی روایات
اگر سرمایہ داری عورت کو “سستا مزدور” بناتی ہے، تو جاگیرداری اور قبیل داری عورت کو مکمل “غلام” بنا دیتی ہے۔ پاکستان میں جاگیرداری اور قبائلی نظام کی جڑیں آج بھی اتنی ہی مضبوط ہیں جتنی وہ صدیوں پہلے تھیں۔
جاگیرداری نظام میں عورت کا کوئی اختیار نہیں ہوتا۔ زمینوں پر کام کرنے والی عورتیں نہ تو زمین کی مالک ہو سکتی ہیں، نہ انہیں اپنی کمائی پر حق حاصل ہوتا ہے، اور نہ ہی انہیں تعلیم یا خودمختاری دی جاتی ہے۔ وڈیروں کے زیرِ سایہ عورت کو محض “کاروکاری” یا “ونی” کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے، اسے خاندانی عزت کے نام پر قتل کیا جاتا ہے، اور اسے نسل در نسل غلام بنا کر رکھا جاتا ہے۔
قبیل داری نظام میں بھی یہی صورتحال ہے۔ بلوچستان، خیبرپختونخوا اور قبائلی علاقوں میں قبیل داری کا جبر آج بھی عورت کے گلے کا طوق بنا ہوا ہے۔ وہاں عورت کو ایک “خاندانی اثاثہ” سمجھا جاتا ہے جسے شادی کے لیے بیچا جا سکتا ہے، دشمنیوں کے بدلے “تحفہ” کے طور پر دیا جا سکتا ہے، اور اگر وہ اپنی مرضی سے جینے کی کوشش کرے تو قتل بھی کیا جا سکتا ہے۔
بلوچستان میں خواتین کی مزاحمتی تحریک بلوچ یکجہتی کمیٹی اسی جبر کے خلاف ایک تاریخی بغاوت ہے۔
ڈاکٹر مہرنگ بلوچ، سمی دین بلوچ اور صبیحہ بلوچ جیسی نوجوان خواتین نے ریاستی جبر، قبیل داری اور مذہبی شدت پسندی کے خلاف آواز بلند کی ہے، جس کے نتیجے میں انہیں دھمکیاں، گرفتاریاں اور ظلم و ستم سہنا پڑ رہا ہے۔ لیکن ان کی جدوجہد یہ ثابت کرتی ہے کہ عورت اب خاموش نہیں رہے گی۔
پاکستان میں عورت کی آزادی پر ایک اور بڑا حملہ مذہبی رجعت پرستی کے ذریعے کیا جاتا ہے۔ عورت کی تعلیم، ملازمت، اور سماجی شرکت کو “مذہب” کے نام پر روکا جاتا ہے۔ یہ وہی مذہبی شدت پسند ہیں جو عورت کے حق میں آنے والے قوانین کو “مغربی ایجنڈا” کہتے ہیں، جو عورتوں کے احتجاج کو “بے حیائی” قرار دیتے ہیں، اور جو عورت کے اپنے جسم پر حق کو “گناہ” سمجھتے ہیں۔
یہ مذہبی گروہ عورت کی آزادی کو اس لیے روکنا چاہتے ہیں کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ اگر عورت آزاد ہو گئی، اگر اس نے تعلیم حاصل کر لی، اگر اس نے اپنے حق میں آواز بلند کر لی، تو وہ نہ جاگیرداری کا شکار رہے گی، نہ سرمایہ داری کا، نہ قبائلی جبر کا، اور نہ ہی ان مذہبی شدت پسندوں کے ہاتھوں یرغمال بنی رہے گی۔
پاکستان میں آج بھی ایسے لوگ موجود ہیں جو عورت کی تعلیم کے خلاف فتویٰ جاری کرتے ہیں، جو عورت کی خودمختاری کو مغربی سازش قرار دیتے ہیں، اور جو عورت کی سیاسی شرکت کو “فطرت کے خلاف” قرار دیتے ہیں۔ یہ سب اس لیے کیا جاتا ہے تاکہ عورت ہمیشہ ایک “تابع فرمان مخلوق” بنی رہے، تاکہ وہ سوال نہ کرے، احتجاج نہ کرے، اور اپنے حقوق کے لیے جدوجہد نہ کرے۔
عورت مارچ اس جبر کے خلاف ایک انقلابی بغاوت بن چکا ہے۔ ہر سال جب عورتیں سڑکوں پر نکلتی ہیں، تو سرمایہ دار، جاگیردار، قبیلہ پرست اور مذہبی شدت پسند سب کے سب خوفزدہ ہو جاتے ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ اگر عورت نے اپنے حقوق مانگ لیے، اگر اس نے اپنے لیے برابری کی جنگ لڑ لی، تو ان کے ظالمانہ نظام کو زوال آ جائے گا۔
اسی لیے عورت مارچ کو “بے حیائی”، “مغربی ایجنڈا”، “سازش” اور نہ جانے کن کن القابات سے نوازا جاتا ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ عورت مارچ اس ملک کی مظلوم اور استحصال زدہ خواتین کی آخری امید ہے۔
عورتوں کا عالمی دن تو گزر چکا ہے، لیکن عورتوں کی جنگ ابھی جاری ہے۔ وہ دن آئے گا جب سرمایہ داری کا خاتمہ ہوگا، جاگیرداری کی زنجیریں ٹوٹیں گی، قبائلی جبر ختم ہوگا، اور مذہبی شدت پسندی کے پردے چاک ہوں گے۔
یہ جنگ مشکل ضرور ہے، لیکن ناممکن نہیں۔ اگر ماضی میں کسانوں نے جاگیرداروں کے خلاف بغاوت کی، اگر مزدوروں نے سرمایہ داری کے خلاف ہڑتالیں کیں، اگر انقلابیوں نے سامراجیت کو شکست دی، تو عورتیں بھی اس استحصالی نظام کے خلاف اپنی آزادی جیت سکتی ہیں۔
اور وہ دن اب زیادہ دور نہیں۔

سینیٹ کی بے توقیری: پارلیمانی اصولوں کی پامالی یا جمہوری استحصال؟


پاکستان کی پارلیمانی تاریخ ایک بار پھر ایسے موڑ پر کھڑی ہے جہاں ایوان بالا، یعنی سینیٹ، کی خودمختاری اور وقار پر سوالات اٹھ رہے ہیں۔ سینیٹ چیئرمین یوسف رضا گیلانی نے ہفتے کے روز اس بات پر شدید برہمی کا اظہار کیا کہ ان کے جاری کردہ پروڈکشن آرڈرز کے باوجود قید پی ٹی آئی سینیٹر اعجاز چوہدری کو ایوان میں پیش نہیں کیا گیا، جبکہ سینیٹر اون عباس بپی کو پیش کر دیا گیا۔ اس عد م تعمیل پر چیئرمین سینیٹ نے معاملہ استحقاق کمیٹی کو بھیج دیا ہے۔
یہ محض ایک تکنیکی مسئلہ نہیں بلکہ ایک بڑی آئینی اور جمہوری خلاف ورزی ہے۔ جب سینیٹ کے چیئرمین کے جاری کردہ پروڈکشن آرڈرز کو نظر انداز کیا جائے تو یہ نہ صرف پارلیمانی اصولوں کی خلاف ورزی ہے بلکہ یہ اس بنیادی جمہوری ڈھانچے پر بھی حملہ ہے جس پر ریاست کی سالمیت اور پارلیمانی بالادستی کی بنیاد رکھی گئی ہے۔
سینیٹ کے قواعد و ضوابط واضح ہیں کہ کسی بھی رکن کو اگر گرفتار کیا جاتا ہے تو اسے اجلاس کے دوران پروڈکشن آرڈر پر ایوان میں پیش کرنے کا پابند کیا جاتا ہے۔ اس سے پہلے بھی مختلف مواقع پر گرفتار سیاستدانوں کو پروڈکشن آرڈر کے تحت اسمبلی اور سینیٹ میں لایا جاتا رہا ہے، لیکن حالیہ واقعات اس جانب اشارہ کرتے ہیں کہ ریاستی مشینری نہ صرف سینیٹ چیئرمین کے احکامات کو نظر انداز کر رہی ہے بلکہ ایک خطرناک مثال قائم کر رہی ہے جہاں پارلیمان کی خودمختاری کو محض ایک نمائشی چیز بنا دیا گیا ہے۔
یہ پہلا موقع نہیں جب کسی رکن کو ایوان میں لانے کے احکامات کو نظر انداز کیا گیا ہو۔ سینیٹر اعجاز چوہدری کے پروڈکشن آرڈرز اس سے قبل بھی تین مرتبہ جاری ہو چکے ہیں، مگر کسی بھی بار ان پر عملدرآمد نہیں ہوا۔ جنوری میں جب اعجاز چوہدری کو سینیٹ اجلاس میں بلانے کے لیے پروڈکشن آرڈر جاری کیے گئے تو وہ حاضر نہ ہو سکے، اور اپوزیشن نے ان کی غیر حاضری کے خلاف احتجاج کیا۔
سوال یہ ہے کہ اگر پارلیمانی احکامات کو کھلم کھلا نظر انداز کیا جا رہا ہے تو پھر ایوان کی خودمختاری کہاں کھڑی ہے؟ کیا پارلیمنٹ ایک بے اختیار ادارہ بن چکی ہے جو محض رسمی کارروائیوں کے لیے استعمال ہوتا ہے؟ اگر پارلیمانی احکامات کو طاقتور قوتیں نظر انداز کر سکتی ہیں، تو پھر جمہوریت کا مستقبل کیا ہوگا؟
سینیٹر اعجاز چوہدری کو مئی 2023 میں پبلک آرڈر ایکٹ کے تحت حراست میں لیا گیا، اور جب عدالت نے ان کی گرفتاری کو غیر قانونی قرار دیا، تو انہیں دوبارہ گرفتار کر لیا گیا۔ ان کے ساتھ سینیٹر اون عباس بپی کی گرفتاری بھی ایک اہم مثال ہے، جو اس ریاستی جبر کی عکاسی کرتی ہے جس کا سامنا آج اپوزیشن جماعتوں کے رہنما کر رہے ہیں۔
سینیٹر اون عباس بپی نے اپنی گرفتاری کے بارے میں جو انکشافات کیے وہ انتہائی تشویشناک ہیں۔ انہوں نے سینیٹ میں تقریر کرتے ہوئے بتایا کہ 6 مارچ کی صبح تقریباً 20 افراد نے ان کے گھر پر دھاوا بولا، ان کے ملازمین کو باندھ دیا، ان کے گھر کا دروازہ توڑ کر اندر داخل ہوئے، اور ان کے اہل خانہ کو ہراساں کیا۔ ان کے مطابق ان کی گرفتاری کے لیے نہ کوئی قانونی نوٹس دیا گیا، نہ کوئی وارنٹ دکھایا گیا، اور نہ ہی انہیں گرفتاری کی وجہ بتائی گئی۔
یہ سب جمہوریت کے نام پر ریاستی جبر کی وہ خوفناک جھلکیاں ہیں جنہیں ہم ماضی میں بھی دیکھ چکے ہیں۔ اپوزیشن کے رہنماؤں پر جھوٹے مقدمات بنانا، انہیں دباؤ میں لانے کے لیے گرفتاریوں کا سہارا لینا، اور ان کی سیاسی سرگرمیوں کو محدود کرنا کوئی نئی حکمت عملی نہیں ہے، لیکن جب پارلیمنٹ کے چیئرمین کے واضح احکامات کے باوجود ایک منتخب سینیٹر کو پیش نہیں کیا جاتا تو یہ جمہوری نظام کے لیے ایک خطرے کی گھنٹی ہے۔
اس صورتحال کے پیچھے صرف ریاستی جبر نہیں بلکہ ایک وسیع تر سرمایہ دارانہ-جاگیردارانہ اتحاد بھی کارفرما ہے، جو اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے پارلیمنٹ جیسے اداروں کو غیر مؤثر بنا رہا ہے۔
پاکستان میں سیاست ہمیشہ طاقتور طبقات کے گرد گھومتی رہی ہے۔ سرمایہ دار، جاگیردار اور قبائلی سردار ہمیشہ سے جمہوری عمل کو اپنے کنٹرول میں رکھنے کی کوشش کرتے رہے ہیں۔ پارلیمانی احکامات کو نظر انداز کرنا اس امر کا ثبوت ہے کہ فیصلہ سازی کی طاقت اب منتخب نمائندوں کے ہاتھ میں نہیں رہی، بلکہ وہ غیر جمہوری قوتیں جو بیوروکریسی، اسٹیبلشمنٹ اور سرمایہ دارانہ اشرافیہ پر مشتمل ہیں، وہی اصل حکمران ہیں۔
یہ نظام اس لیے مضبوط ہے کیونکہ اسے مذہبی رجعت پسندی کا سہارا حاصل ہے، جو عوام کو جمہوریت اور حقوق کے شعور سے محروم رکھنے میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ جب مذہبی بیانیہ عوام کو یہ باور کراتا ہے کہ حکمرانوں کی ہر زیادتی ’’تقدیر کا لکھا‘‘ ہے اور ظلم کے خلاف آواز اٹھانا “بغاوت” کے مترادف ہے، تو پھر ایسے سماج میں پارلیمنٹ محض ایک نمائشی ادارہ بن کر رہ جاتا ہے، اور طاقت کا مرکز کہیں اور منتقل ہو جاتا ہے۔
یہ معاملہ صرف پی ٹی آئی یا کسی مخصوص جماعت کے رہنماؤں کی گرفتاری تک محدود نہیں۔ یہ ایک بڑے سوال کی طرف اشارہ کرتا ہے: کیا پارلیمنٹ واقعی بااختیار ہے؟ اگر منتخب چیئرمین سینیٹ کے احکامات کو کوئی ادارہ نظر انداز کر سکتا ہے، تو پھر عوام کے منتخب کردہ دیگر نمائندوں کا کیا حال ہوگا؟
پاکستان میں پارلیمنٹ کو بار بار کمزور کیا گیا ہے، کبھی مارشل لا کے ذریعے، کبھی صدارتی آرڈیننس کے ذریعے، اور کبھی عدالتی مداخلت کے ذریعے۔ آج پارلیمنٹ کی بے بسی اور اس کے چیئرمین کے احکامات کی بے توقیری ہمیں یہ سوچنے پر مجبور کرتی ہے کہ کیا یہ ملک واقعی جمہوری ہے؟
یوسف رضا گیلانی کا یہ مؤقف کہ “پارلیمنٹ کی بالادستی کو یقینی بنانا ان کی اولین ذمہ داری ہے”، یقیناً ایک اصولی موقف ہے، لیکن جب تک اس موقف کو عملی اقدامات میں تبدیل نہیں کیا جاتا، تب تک یہ محض الفاظ رہیں گے۔ آج ضرورت اس بات کی ہے کہ تمام سیاسی جماعتیں، تمام جمہوریت پسند قوتیں، اور عوام اس جمہوری استحصال کے خلاف متحد ہوں۔ اگر پارلیمنٹ کی خودمختاری پر حملے جاری رہے، اگر عوام کے منتخب نمائندے اپنی ہی اسمبلیوں میں داخل نہ ہو سکے، اور اگر ریاستی جبر کا یہ سلسلہ نہ رکا، تو پھر اس ملک میں صرف “نیم جمہوریت” باقی رہ جائے گی، جہاں انتخابات تو ہوں گے مگر اختیارات کہیں اور ہوں گے۔
یہ وقت خاموش رہنے کا نہیں، بلکہ جمہوری مزاحمت کا ہے۔ کیونکہ اگر آج ایک سینیٹر کا پروڈکشن آرڈر نظر انداز کیا جا سکتا ہے، تو کل کسی بھی عوامی منتخب حکومت کو کسی بھی بہانے سے بے دخل کیا جا سکتا ہے۔ یہ جنگ صرف ایک جماعت کی نہیں، بلکہ پوری جمہوریت کی بقا کی جنگ ہے!

عالمی انسانی حقوق کا بحران اور نئی عالمی صف بندی


اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے ہائی کمشنر وولکر ترک نے انسانی حقوق کونسل کے سالانہ اجلاس میں ایک تلخ حقیقت کی نشاندہی کی کہ دنیا میں جابرانہ قوتوں کا تسلط بڑھ رہا ہے اور انسانی حقوق کا دم گھونٹا جا رہا ہے۔ ترک کا یہ بیان عالمی سیاسی عدم استحکام، جبر، جنگوں اور مہاجرت کے مسلسل بڑھتے ہوئے بحران کی عکاسی کرتا ہے۔ تاہم، کیا یہ محض انسانی حقوق کی پامالی کا سوال ہے، یا اس کے پیچھے عالمی طاقتوں کی نئی صف بندی اور سرمایہ دارانہ سامراجی قوتوں کی چالیں کارفرما ہیں؟
دنیا میں بڑھتی ہوئی آمریتوں کا ذکر کرتے ہوئے ترک نے ایک بنیادی حقیقت کو نظر انداز کیا کہ جمہوریت اور انسانی حقوق کا چہرہ بگاڑنے میں خود مغربی طاقتیں بھی برابر کی شریک رہی ہیں۔ کیا عراق، لیبیا، شام، اور افغانستان میں ہونے والی تباہی اور بربادی کسی آمر کی ذاتی خواہش کا نتیجہ تھی یا پھر ان مغربی ممالک کے مفادات کی جنگ تھی جو انسانی حقوق کے چمپئن ہونے کے دعویدار ہیں؟
ترک نے جس “عالمی بھونچال کا ذکر کیا، وہ دراصل یک قطبی دنیا کے زوال اور کثیر القطبی عالمی نظام کے ابھرنے کا نتیجہ ہے۔ سرد جنگ کے بعد سے امریکہ اور اس کے اتحادی دنیا کے واحد حکمراں بن بیٹھے تھے، مگر آج یہ نظام لرز رہا ہے۔ چین، روس، ایران اور دیگر طاقتیں اب عالمی سطح پر امریکی تسلط کو چیلنج کر رہی ہیں۔” یوکرین جنگ اس تناظر میں دیکھی جا سکتی ہے، جہاں مغربی میڈیا اور نیٹو ممالک مسلسل روس کو جارحیت کا مرتکب قرار دے رہے ہیں، مگر حقیقت یہ ہے کہ یہ جنگ امریکہ اور نیٹو کی جانب سے روسی سرحدوں کی خلاف ورزی کے نتیجے میں شروع ہوئی۔ امریکہ نے یوکرین کو نیٹو میں شامل کرنے کی ضد کی، روس کی سیکیورٹی خدشات کو مسترد کیا، اور ایک ایسے تصادم کی بنیاد رکھی جو آج بھی ہزاروں انسانوں کی جان لے رہا ہے۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ 2022 میں روس اور یوکرین کے درمیان استنبول معاہدہ طے پا چکا تھا، مگر اسے ناکام بنانے میں امریکہ اور برطانیہ پیش پیش رہے۔ اگر یہ معاہدہ کامیاب ہو جاتا تو آج یوکرین کھنڈرات میں تبدیل نہ ہوتا اور لاکھوں افراد بے گھر نہ ہوتے۔ مگر مغربی سامراج کو امن نہیں بلکہ جنگ چاہیے تھی، تاکہ وہ اپنی اسلحہ ساز صنعتوں کو زندہ رکھ سکے اور یورپ کو روسی گیس سے محروم کر کے اپنے مہنگے توانائی ذرائع فروخت کر سکے۔ یورپ میں مہاجرین مخالف دائیں بازو کی جماعتوں کا عروج ایک اور بڑا بحران ہے۔ فرانسیسی اور جرمن حکومتیں دائیں بازو کی جماعتوں کو حکومت میں آنے سے روک رہی ہیں، مگر ان جماعتوں کی حمایت میں اضافہ ہو رہا ہے، خاص طور پر اس لیے کہ عوام انہیں مہاجرین کے خلاف ایک مضبوط موقف اپنانے والی قوت کے طور پر دیکھ رہے ہیں۔ مگر سوال یہ ہے کہ ان مہاجرین کی ہجرت کی وجوہات کیا ہیں؟ عراق، لیبیا، شام، افغانستان، سوڈان اور دیگر ممالک سے یورپ آنے والے مہاجرین کی اکثریت ان جنگوں اور معاشی بحرانوں کا نتیجہ ہے جو امریکہ اور اس کے مغربی اتحادیوں نے پیدا کیے۔ یعنی پہلے ان ممالک پر جنگیں مسلط کی گئیں، ان کے وسائل لوٹے گئے، وہاں حکومتیں گرانے کے لیے دہشت گرد گروہوں کی سرپرستی کی گئی، اور پھر جب وہاں کے عوام بے گھر ہو کر ہجرت پر مجبور ہوئے، تو انہی مغربی ممالک نے انہیں اپنا دشمن قرار دے دیا۔
جرمنی میں اے ایف ڈی جیسی جماعتیں یوکرین جنگ کو ختم کر کے روس کے ساتھ گیس پائپ لائن دوبارہ بحال کرنے کی بات کر رہی ہیں، کیونکہ جرمن معیشت کی تباہی کی ایک بڑی وجہ سستی روسی گیس سے محرومی ہے۔ مگر اس سے بھی بڑا سوال یہ ہے کہ کیا مغربی دنیا واقعی جمہوریت اور انسانی حقوق کے اصولوں پر چلتی ہے، یا یہ صرف ایک مفاداتی کھیل ہے؟
امریکی سیاست میں “ڈیپ اسٹیٹ” کا کردار ہمیشہ سے متنازع رہا ہے۔ حالیہ برسوں میں اس بحث نے شدت اختیار کر لی ہے کہ امریکی حکمران اشرافیہ دراصل عالمی سطح پر مداخلت پسند پالیسیوں کے ذریعے اپنی بالادستی قائم رکھنا چاہتی ہے۔
ڈونلڈ ٹرمپ نے متعدد بار روس کے ساتھ بات چیت کی خواہش ظاہر کی، مگر امریکی اسٹیبلشمنٹ، میڈیا اور پالیسی ساز ادارے مسلسل جنگی پالیسیوں کو فروغ دے رہے ہیں۔ اس کا بنیادی مقصد وہ اسلحہ ساز صنعتیں ہیں جو جنگ کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتیں۔
عراق، شام، لیبیا، افغانستان، اور یوکرین میں جنگوں کے پیچھے بھی یہی استحصالی ذہنیت کارفرما تھی۔ مگر اب حالات بدل رہے ہیں، اور عوام بھی سمجھنے لگے ہیں کہ ان جنگوں کی قیمت کون چکا رہا ہے—صرف وہ مظلوم عوام جو ان جنگ زدہ ممالک میں بے یار و مددگار رہ گئے ہیں، یا وہ مہاجرین جو اب یورپ کے لیے مسئلہ بن چکے ہیں۔
پاکستان ہمیشہ سے عالمی طاقتوں کے بیچ پِسا رہا ہے۔ 1980 کی دہائی میں افغان جنگ کے دوران 3 ملین سے زائد افغان مہاجرین کو پناہ دینا ہماری ایک بڑی معاشی اور سماجی غلطی تھی۔ آج جب افغانستان میں طالبان کی حکومت ہے، تو مہاجرین کی واپسی کی کوششیں جاری ہیں، مگر اس کا ردعمل دہشت گردی کی نئی لہر کی صورت میں دیکھنے کو مل رہا ہے۔
پاکستان اس وقت عالمی سطح پر سرمایہ کاری کے لیے دروازے کھول رہا ہے، مگر سوال یہ ہے کہ کیا یہ واقعی ہماری معیشت کے لیے فائدہ مند ہوگا؟ بغیر کسی باہمی اصول کے اگر ہم سرمایہ کاروں کے لیے اپنی سرحدیں کھولتے ہیں، تو یہ استحصالی پالیسی ہمارے لیے کتنا نقصان دہ ہو سکتی ہے؟
یہ وقت جذباتی فیصلے کرنے کا نہیں بلکہ حقیقت پسندانہ پالیسی اپنانے کا ہے۔ پاکستان کو درج ذیل نکات پر غور کرنا ہوگا:
خودمختار خارجہ پالیسی اپنانے کی ضرورت ہے، جو کسی بھی عالمی طاقت کی کٹھ پتلی نہ ہو۔
عالمی جنگوں اور تصادم میں نیوٹرل رہنے کی حکمت عملی اپنانی ہوگی، تاکہ ہم کسی نئے بحران میں نہ الجھیں۔
مہاجرین کے مسئلے پر مغربی دوغلے پن کو بے نقاب کرنا ہوگا اور عالمی سطح پر ایک واضح پالیسی اختیار کرنی ہوگی۔
ملک میں سرمایہ کاری کے نام پر غیر ملکی اجارہ داری قائم ہونے سے روکنے کے لیے مقامی معیشت کو مستحکم کرنا ہوگا۔
جمہوری اصولوں کی پاسداری کرتے ہوئے ریاستی جبر، آمریت اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو مسترد کرنا ہوگا۔
دنیا ایک نئے عالمی نظام کی طرف بڑھ رہی ہے، اور اگر پاکستان نے اپنی خودمختاری اور عوامی فلاح پر توجہ نہ دی تو ہم پھر سے ایک نئی سامراجی چال میں پھنس سکتے ہیں۔ یہ وقت حقیقت کو سمجھنے، سامراجیت کو مسترد کرنے، اور ایک آزاد، خودمختار اور ترقی یافتہ پاکستان کے لیے حکمت عملی تیار کرنے کا ہے۔

شیئر کریں

:مزید خبریں