ملتان(سٹاف رپورٹر)سپریم کورٹ کے حکم پر زندگی موت میں تبدیل ہو سکتی ہے، کوئی بھی شخص زندگی بھر کیلئےقید میں جا سکتا ہے۔ سپریم کورٹ کے انفرادی احکامات پر عمل درآمدکیلئےادارے حرکت میں آجاتے ہیں مگر سپریم کورٹ کے اجتماعی بہتری کے احکامات پر اداروں کی نظر ہی نہیں پڑتی ۔سپریم کورٹ کا واضح حکم ہے کہ کوئی بھی نجی تعلیمی ادارہ اپنا یونیفارم ،اپنی کتابیں، کاپیاں ،سٹیشنری اور دیگر غیر نصابی تقریبات کیلئے رقم نہیں لے سکتا مگر ملک بھر کے کروڑوں والدین روزانہ کے حساب سے ایجوکیشن مافیا کے ہاتھوں لوٹے جا رہے ہیں اور یہ احکامات کہیں بھی عمل درآمد کے مراحل سے نہیں گزر رہے۔اس وقت پنجاب میں صورتحال یہ ہے کہ نجی تعلیمی اداروں نے فیسوں پر بھی سود خوری شروع کر رکھی ہے اور فیس لیٹ ہونے کی صورت میں سود بھی بڑھتا جاتا ہے۔ چند سال قبل تک گرمیوں کی چھٹیوں کے پرنٹ شدہ ہوم ورک کی فیس لی جاتی تھی اور اب صورتحال یہ ہے کہ دسمبر کی 10 چھٹیوں کابھی طبع شدہ ہوم ورک پیسہ لے کر دیا جانے لگا ہے۔ مارکیٹ میں 80 روپے کی عام سی کاپی نجی سکولوں کی انتظامیہ نے 150 سے 180 روپے میں فراہم کرنے کا باقاعدہ دھندا شروع کر رکھا ہے اور اب صورتحال اس حد تک ابتر ہو چکی ہے کہ سکولوں کے ساتھ ساتھ کالجوں حتیٰ کہ یونیورسٹیوں اور ٹیوشن سنٹروں میں بھی طبع شدہ نوٹس بھاری معاوضہ پر طلبہ کو فروخت کیے جا رہے ہیں اور بعض یونیورسٹی اساتذہ نے بھی نوٹس فروشی شروع کر رکھی ہے اور انہوں نے نوٹس چھپوا کر اپنے ناموں کے ساتھ کالجوں اور یونیورسٹیوں کے اندر موجود دکانوں پر منہ مانگی قیمتوں پر رکھوا دیئے ہیں اور ہزاروں کی تعداد ایسے اساتذہ کی ہر یونیورسٹی، کالج، تکنیکی اور فنی اداروں میں سرکاری و نجی شعبے میں موجود ہے جو کلاسوں میں’’ گپ شپ‘‘ اور کلاسوں کے بعد نوٹس فروشی کرتے ہیں ۔پبلک سیکٹر یونیورسٹی میں چونکہ پڑھانے والا ٹیچر ہی پیپر بناتا ہے اور وہی چیک کرتا ہے لہٰذا اس کے پاس طلبا و طالبات کو بلیک میل کرنے کے اچھے خاصے مواقع میسر آجاتے ہیں۔ تین دہائیاں گزرنے کے باوجود وفاقی وزارت تعلیم، ایجوکیشن کے صوبائی محکمے اور ہائر ایجوکیشن کمیشن نہ تو فیسوں کی کوئی یکساں شرح متعین کر کے اس پر عمل درآمد کرا سکےہیںاور نہ ہی یونیورسٹیوں اور دیگر نجی تعلیمی اداروں میں غیر قانونی داخلے بند کرا سکے ہیں اور نہ ہی غیر منظور شدہ کورسز کرانے والی یونیورسٹیوں اور دیگر تعلیمی اداروں کے خلاف کارروائی کر سکے ہیں جبکہ نہ ہی سپریم کورٹ نے کبھی نوٹس لیا کہ ان کے احکامات اور فیصلوں پر عمل درآمد نہ کئے جانے کی ضرورت میں سپریم کورٹ کی بے توقیری کی جا رہی ہے اس پر عمل درآمد نہ کرانے والے اداروں کے سربراہان کے خلاف کارروائی کی جا سکے۔
