امریکہ اور چین کے درمیان جاری معاشی اور تزویراتی کشاکش دراصل دو عالمی طاقتوں کی بالادستی کی جنگ ہے، جس کے اثرات براہِ راست ترقی پذیر ممالک پر مرتب ہو رہے ہیں۔ یہ جنگ محض معاشی برتری کے لیے نہیں بلکہ اس کا بنیادی مقصد عالمی مالیاتی اور تجارتی نظام پر مکمل کنٹرول حاصل کرنا ہے۔ جہاں امریکہ “آزاد منڈی” اور “جمہوریت” کے نام پر دنیا کو اپنی شرائط پر چلانے کی کوشش کرتا ہے، وہیں چین معاشی ترقی” کے نعرے کے تحت اپنی گرفت مضبوط کر رہا ہے۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس جنگ میں ترقی پذیر ممالک کا کیا کردار ہے؟ کیا وہ خودمختار ہیں، یا پھر محض بڑی طاقتوں کے شطرنج کے مہرے؟ امریکہ کی معاشی حکمت عملی ہمیشہ سے ایک ہی رہی ہے: آزاد منڈی، سرمایہ دارانہ اصول، اور اس نظام کے ذریعے دنیا پر کنٹرول۔ لیکن حقیقت اس سے کہیں زیادہ تلخ ہے۔ امریکہ درحقیقت ترقی پذیر ممالک کو عالمی مالیاتی اداروں جیسے کہ آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کے ذریعے قرضوں کے جال میں پھنسا کر ان کی اقتصادی خودمختاری چھین لیتا ہے۔ پاکستان اس کی ایک واضح مثال ہے۔ حالیہ برسوں میں، امریکہ اور مغربی مالیاتی اداروں کے ساتھ پاکستان کے تعلقات مسلسل کشیدگی کا شکار رہے ہیں۔ امریکہ کی نظر میں پاکستان اس وقت تک ایک “مفید اتحادی” ہے جب تک وہ واشنگٹن کے اشاروں پر چلتا رہے۔ لیکن جیسے ہی پاکستان نے چین کے ساتھ اقتصادی تعلقات بڑھانے کی کوشش کی، مغربی مالیاتی اداروں نے پاکستان پر مزید سخت شرائط عائد کر دیں۔ آئی ایم ایف کے قرضے ایک ایسے شکنجے کی مانند ہیں جن سے نکلنا تقریباً ناممکن ہو چکا ہے۔اسی طرح، افریقی ممالک اور لاطینی امریکہ بھی اسی جال میں پھنسے ہوئے ہیں۔ اگر کوئی ملک امریکی شرائط ماننے سے انکار کرے تو اسے عالمی مالیاتی نظام سے کاٹنے کی دھمکی دی جاتی ہے۔ ایران اور وینزویلا جیسے ممالک اس کی زندہ مثالیں ہیں، جن پر اقتصادی پابندیاں لگا کر انہیں دیوالیہ ہونے کے قریب پہنچا دیا گیا۔دوسری طرف چین، جو بظاہر مغربی سامراجیت کا متبادل بن کر ابھرا تھا، خود ایک نئے سامراج کی شکل اختیار کر چکا ہے۔ وہ ترقی پذیر ممالک کو “ون بیلٹ، ون روڈ” جیسے منصوبوں کے ذریعے ترقی کا خواب دکھاتا ہے، لیکن اس کا اصل مقصد ان ممالک کو اپنے قرضوں میں جکڑنا ہے۔ پاکستان میں سی پیک (CPEC) کو لے لیں۔ چینی سرمایہ کاری کا دعویٰ تو یہ تھا کہ یہ پاکستان کی معیشت کو مستحکم کرے گی، لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس کے ثمرات زیادہ تر چینی کمپنیوں اور پاکستانی اشرافیہ تک محدود رہے ہیں۔ مقامی معیشت پر اس کے اثرات اتنے مثبت نہیں جتنے دعوے کیے گئے تھے۔ چینی کمپنیاں اپنی شرائط پر کام کرتی ہیں، مقامی صنعتوں کو زیادہ فائدہ نہیں پہنچتا، اور پاکستان کے ذمے قرضے بڑھتے جا رہے ہیں۔اسی طرح، سری لنکا کی ہمبنٹوٹا بندرگاہ کی مثال لے لیں، جہاں چین نے پہلے سرمایہ کاری کی، اور جب سری لنکا قرض اتارنے میں ناکام رہا، تو بیجنگ نے 99 سال کے لیے بندرگاہ کا کنٹرول سنبھال لیا۔ کیا یہ ترقی ہے یا نیا سامراج؟ چین کا یہی ماڈل افریقہ، وسطی ایشیا اور لاطینی امریکہ میں دہرایا جا رہا ہے۔ چینی سرمایہ کاری بظاہر انفراسٹرکچر ڈویلپمنٹ کے لیے ہوتی ہے، لیکن درحقیقت یہ ایک ایسا جال ہے جس میں ترقی پذیر ممالک کی معیشتیں پھنس جاتی ہیں۔پاکستان کی موجودہ خارجہ پالیسی ایک مشکل دوراہے پر کھڑی ہے۔ ایک طرف چین کے ساتھ سی پیک جیسے منصوبے ہیں، جو بظاہر معیشت کو سہارا دینے کے لیے بنائے گئے تھے، مگر اب سیکیورٹی خدشات اور قرضوں کی واپسی کے مسائل بڑھ رہے ہیں۔ دوسری طرف، امریکہ اور اس کے مالیاتی ادارے پاکستان کو اپنی شرائط پر چلانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ حال ہی میں صدر آصف زرداری کے چین کے دورے کے دوران، پاکستانی قیادت نے سی پیک 2.0 اور دیگر اقتصادی تعاون پر زور دیا۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ چینی سرمایہ کار اب پاکستان میں سرمایہ کاری سے ہچکچا رہے ہیں، کیونکہ سیکیورٹی خطرات، بیوروکریٹک رکاوٹیں، اور قرضوں کی غیر یقینی صورتحال نے انہیں محتاط کر دیا ہے۔چینی شہریوں پر ہونے والے حالیہ دہشت گرد حملوں نے دونوں ممالک کے تعلقات کو مزید پیچیدہ بنا دیا ہے۔ پاکستان کو چین کو یقین دلانے کے لیے غیرمعمولی سیکیورٹی اقدامات کرنے پڑ رہے ہیں۔ داخلی طور پر، حکومت کو تنقید کا سامنا ہے کہ آخر کیوں چینی منصوبوں کو اتنی خصوصی سیکیورٹی دی جا رہی ہے جبکہ ملکی عوام بنیادی سہولیات کے لیے ترس رہے ہیں؟پاکستان کے لیے سب سے بڑا چیلنج یہ ہے کہ وہ امریکہ اور چین کے درمیان توازن کیسے برقرار رکھے؟ امریکہ نہیں چاہتا کہ پاکستان مکمل طور پر چینی اثر و رسوخ میں چلا جائے، جبکہ چین بھی پاکستان کو صرف اپنی معاشی کالونی بنانے کی راہ پر گامزن ہے۔ ماضی میں، پاکستان نے امریکہ اور چین کے ساتھ متوازن تعلقات قائم رکھے۔ لیکن اب یہ توازن بگڑتا جا رہا ہے۔ امریکہ کی خواہش ہے کہ پاکستان اس کی مالیاتی پالیسیوں کے تابع رہے، جبکہ چین چاہتا ہے کہ پاکستان اپنے اسٹریٹجک فیصلے بیجنگ کے مفادات کے مطابق کرے۔پاکستان اور دیگر ترقی پذیر ممالک کے لیے سب سے بڑا چیلنج یہ ہے کہ وہ اپنی معیشت کو ان بڑی طاقتوں کے اثر و رسوخ سے بچائیں۔ قرضوں پر انحصار کم کرتے ہوئے مقامی صنعتوں کو فروغ دیا جائے اور علاقائی تجارتی بلاکس تشکیل دیے جائیں تاکہ عالمی مالیاتی اداروں اور چینی قرضوں کے جال سے نجات حاصل ہو سکے۔ ترقی پذیر ممالک کو چاہیے کہ وہ اپنی خارجہ پالیسی میں ایسی حکمت عملی اپنائیں جو کسی ایک طاقت کے مکمل تابع ہونے کے بجائے خودمختاری کو یقینی بنائے۔ آئی ایم ایف اور چین دونوں کے قرضے مشروط ہوتے ہیں، اس لیے بہتر ہوگا کہ مقامی پیداوار، صنعتی ترقی، اور برآمدات پر توجہ دی جائے تاکہ بیرونی مالی امداد پر انحصار کم ہو۔ پاکستان جیسے ممالک کو امریکہ اور چین کے درمیان توازن برقرار رکھتے ہوئے خود کو ایک خودمختار معیشت کے طور پر کھڑا کرنا ہوگا، ورنہ وہ ہمیشہ ان طاقتوں کی معاشی شطرنج کے مہرے ہی بنے رہیں گے۔
اسرائیلی سازش، سعودی تمانچہ اور فلسطینیوں کا فولادی عزم
نیتن یاہو اور اس کے صیہونی حواریوں کی خباثت اب کسی پردے کی محتاج نہیں۔ اسرائیلی قیادت جو اب تک فلسطین پر ظلم و جبر کے منصوبے خفیہ طور پر بناتی تھی، اب اتنی بے لگام ہو چکی ہے کہ فلسطینیوں کی جبری بے دخلی جیسے گھناؤنے عزائم کو مذاق میں اڑانے لگی ہے۔ نیتن یاہو نے ایک انٹرویو میں جب “فلسطینی ریاست” کو “سعودی ریاست” کہنے کی کوشش کی تو وہ محض ایک زبانی پھسلن نہیں بلکہ اس گھناؤنے سامراجی منصوبے کا اعتراف تھا جس پر اسرائیل برسوں سے کام کر رہا ہے۔ مگر اسرائیل کو شاید یہ خوش فہمی ہو گئی تھی کہ وہ عرب دنیا کو اپنی مکاری سے بے وقوف بنا لے گا۔ سعودی عرب نے جس تیزی اور سختی سے اس منصوبے کو رد کیا، وہ دراصل ایک زوردار تمانچہ ہے جو اسرائیل کے چہرے پر رسید کیا گیا ہے۔یہ پہلا موقع نہیں جب اسرائیل نے فلسطینیوں کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کی کوشش کی ہو۔ 1948 سے لے کر آج تک، صیہونی دہشت گردی کا بنیادی اصول یہی رہا ہے: فلسطینیوں کو بے دخل کرو، ان کی زمین پر قبضہ کرو، اور دنیا کو یہ تاثر دو کہ فلسطینی کہیں اور جا سکتے ہیں۔ مگر فلسطینیوں کی قسمت کوئی اسرائیلی نقشہ نہیں جسے نیتن یاہو اور اس کے مغربی آقا اپنی مرضی سے بدل دیں۔ فلسطین نہ ماضی میں جھکا تھا، نہ اب جھکے گا۔سعودی عرب نے واضح الفاظ میں اسرائیلی منصوبے کو مسترد کر کے ایک دو ٹوک پیغام دیا ہے کہ فلسطین عربوں کا مسئلہ تھا، ہے اور رہے گا۔ اسرائیل شاید یہ سمجھ رہا تھا کہ کچھ عرب ممالک کے ساتھ تعلقات معمول پر لانے کے بعد فلسطینیوں کو دھوکہ دیا جا سکتا ہے، مگر سعودی عرب نے یہ ثابت کر دیا کہ فلسطین پر سودے بازی ممکن نہیں۔ اگر نیتن یاہو یہ سمجھتا ہے کہ وہ فلسطینی عوام کو ایک بار پھر جلاوطن کرنے میں کامیاب ہو جائے گا، تو یہ اس کی احمقانہ خوش فہمی ہے۔پاکستان نے بھی اسرائیلی خباثت کے خلاف ایک بھرپور اور غیر متزلزل مؤقف اختیار کیا ہے۔ نائب وزیراعظم و وزیر خارجہ اسحاق ڈار نے ایرانی وزیر خارجہ سے گفتگو میں نہ صرف اسرائیل کے جبری بے دخلی کے منصوبے کی شدید مذمت کی بلکہ فلسطینیوں کے حقِ خودارادیت کی غیر مشروط حمایت کا اعادہ کیا۔ پاکستان نے واضح کیا کہ فلسطین کسی سودے بازی کا نام نہیں، بلکہ ایک اصولی موقف ہے، جسے طاقت، سازش یا مغربی پشت پناہی سے تبدیل نہیں کیا جا سکتا۔ پاکستان نے OIC کے وزرائے خارجہ کا ہنگامی اجلاس بلانے کی حمایت بھی کی تاکہ اسرائیل کے خلاف مشترکہ لائحہ عمل طے کیا جا سکے۔پاکستان کا مؤقف محض سفارتی تکلف نہیں، بلکہ تاریخی حقیقتوں پر مبنی ہے۔ یہ وہی پاکستان ہے جس نے اسرائیل کو کبھی تسلیم نہیں کیا، جو ہر عالمی فورم پر فلسطینیوں کے حق میں ڈٹا رہا، اور جس نے ہمیشہ فلسطینی مزاحمت کو دہشت گردی کے مغربی بیانیے کے خلاف چیلنج کیا۔ پاکستان کا پیغام واضح ہے: فلسطین فروشوں کو تاریخ معاف نہیں کرے گی۔یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ اسرائیل آخر یہ جرات کہاں سے لاتا ہے کہ وہ فلسطینیوں کو بے دخل کرنے کی بات کرے؟ جواب بہت آسان ہے: امریکہ اور مغربی طاقتوں کی اندھی حمایت! یہی وہ مغربی ممالک ہیں جو اسرائیلی نسل کشی کو “دفاع” اور فلسطینی مزاحمت کو “دہشت گردی” قرار دیتے ہیں۔ جو یوکرین میں روسی حملے پر چیخ و پکار کرتے ہیں، مگر جب اسرائیلی فوج فلسطینی بچوں کو ذبح کرتی ہے تو “تشویش” کے دو لفظوں سے آگے نہیں بڑھتے۔ یہ وہی دوغلا نظام ہے جو صیہونی ریاست کو فلسطینی خون بہانے کے لیے کھلی چھوٹ دیتا ہے۔مگر فلسطینی عوام نے ثابت کر دیا ہے کہ وہ صرف لاشیں گرانے کے لیے نہیں بنے، وہ مزاحمت کے لیے پیدا ہوئے ہیں! جو لوگ یہ سمجھ رہے تھے کہ غزہ پر وحشیانہ بمباری کے بعد فلسطینی جھک جائیں گے، وہ اب دیکھ لیں کہ ہر اسرائیلی حملہ فلسطینی عزم کو مزید جلا بخشتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسرائیل فلسطینیوں کو نکال باہر کرنے کے نئے منصوبے بنانے پر مجبور ہے۔ اسرائیل جانتا ہے کہ وہ مزاحمت کو ختم نہیں کر سکتا، اس لیے وہ فلسطینیوں کو ان کے گھروں سے نکال کر ان کی شناخت ہی مٹانے کے درپے ہے۔ مگر فلسطین کی شناخت کوئی کاغذی سرحد نہیں، جسے صیہونی قلم سے مٹا دیا جائے۔یہ وقت ہے کہ مسلم دنیا عملی اقدامات کرے۔ سعودی عرب اور پاکستان نے اگرچہ اسرائیل کو زوردار پیغام دے دیا ہے، مگر اب OIC کو سفارتی مروت سے نکل کر حقیقی فیصلے کرنے ہوں گے۔ عرب اور مسلم دنیا اگر اسرائیل کے خلاف معاشی بائیکاٹ شروع کر دے، اس کے سفارتی اثر و رسوخ کو چیلنج کرے، اور مغربی طاقتوں پر اسرائیلی پشت پناہی ترک کرنے کے لیے دباؤ ڈالے، تو اسرائیل کی طاقت زمین بوس ہو سکتی ہے۔ اگر فلسطینی عوام اسرائیلی بمباری میں بھی ڈٹے رہ سکتے ہیں، اگر وہ اپنی زمین کا دفاع کرتے ہوئے اپنی جانیں قربان کر سکتے ہیں، تو مسلم دنیا کو بھی صرف بیانات سے آگے بڑھ کر اقدامات کرنے ہوں گے۔نیتن یاہو اور اس کے صیہونی آقا جتنا چاہیں فلسطینیوں کو بے دخل کرنے کے خواب دیکھیں، یہ خواب ہمیشہ کی طرح چکنا چور ہوں گے۔ اسرائیل ایک ناسور ہے جو جلد یا بدیر اپنے زہر میں خود ہی ڈوب جائے گا۔ فلسطینی عوام کو اپنے گھروں سے بے دخل کرنے کا منصوبہ وہی احمق سوچ ہے جو اسرائیل کو پہلے بھی بارہا منہ کی کھلوا چکی ہے۔ یہ 1948 یا 1967 نہیں، جہاں فلسطینی بے سروسامانی کے عالم میں ہجرت پر مجبور ہو جائیں۔ آج فلسطین کی ہر گلی، ہر کوچہ، ہر پتھر مزاحمت کا نشان ہے۔ اسرائیل کا وجود غاصبانہ ہے اور ایک دن اسی مزاحمت کے ہاتھوں یہ ناجائز ریاست اپنے انجام کو پہنچے گی۔ نیتن یاہو یاد رکھے: فلسطین زندہ تھا، زندہ ہے اور زندہ رہے گا، اور اسرائیل کی دروغ گوئی، مکاری اور سفاکیت بالآخر مٹی میں دفن ہو کر رہے گی!
! جمہوریت کی نئی سائنس: ووٹ دو، دھوکہ لو، مار کھاؤ
پاکستانی سیاست میں روزانہ نت نئی ایجادات ہو رہی ہیں۔ پہلے لوگ انتخابات جیت کر اسمبلیوں میں جاتے تھے، اب الیکشن جیت کر جیلوں میں جاتے ہیں۔ پہلے ووٹوں کی گنتی کے بعد نتیجہ آتا تھا، اب نتیجہ پہلے طے ہوتا ہے اور ووٹوں کی گنتی بعد میں کی جاتی ہے۔ پہلے ووٹ چوری کیے جاتے تھے، اب پورے امیدوار ہی “گم” کر دیے جاتے ہیں۔ اور ہاں، جیتنے والوں کو “ہار” کا سرٹیفکیٹ بھی ملتا ہے، تاکہ وہ اپنی “جمہوری شکست” پر خوشی خوشی احتجاج کریں اور پھر پولیس سے اعزازی تشدد” بھی وصول کریں۔ڈیرہ غازی خان کے این اے 184 سے پی ٹی آئی کے امیدوار علی محمد کھلول کی کہانی بھی کچھ ایسی ہی ہے۔ صاحب نے بڑی محنت سے الیکشن لڑا، عوام نے ووٹ دیا، وہ خوشی خوشی جیت بھی گئے، مگر پھر فارم 47 آ گیا—یعنی وہ کاغذ جس پر ہارنے والے جیتتے ہیں اور جیتنے والے اپنی قسمت کو روتے ہیں۔ جی ہاں، فارم 45 پر موصوف جیت رہے تھے، مگر فارم 47 کی “مقدس طاقت” نے انہیں چمتکار کے ذریعے ہرا دیا۔ اور یہ کوئی معمولی ہار نہیں تھی، بلکہ وہ قسم کی ہار تھی جس کے بعد اگر آپ کو احتجاج کی جرات ہو، تو سیدھا پولیس کی مہمان نوازی” میں پہنچا دیا جاتا ہے۔علی محمد کھلول نے بھی شاید جیت کے بعد خوشی منانے کی غلطی کر دی تھی، اس لیے پہلے انہیں شکست کا “تحفہ” دیا گیا اور جب وہ اس تحفے پر زیادہ خوش نہ ہوئے، تو ساتھ میں کچھ تربیتی تشدد” بھی پیش کر دیا گیا۔ صرف یہی نہیں، بلکہ پی ٹی آئی کے ضلعی جنرل سیکریٹری عاطف خان مستوئی سمیت کئی دیگر کارکنوں کو بھی گرفتار کر لیا گیا، تاکہ وہ سمجھ سکیں کہ جمہوریت” میں ووٹ دینے کے بعد آپ کا سب سے پہلا فرض یہ ہے کہ آپ ہارنے والے کو مبارکباد دیں، ورنہ پولیس آپ کو “قائل” کرنے آ جاتی ہے۔دلچسپ بات یہ ہے کہ پولیس نے اس پورے معاملے پر خاموشی اختیار کر رکھی ہے۔ بالکل وہی خاموشی جو اس وقت اختیار کی جاتی ہے جب کوئی انتہائی شرمناک جرم سرزد ہو اور مجرموں کو خود بھی احساس ہو کہ انہوں نے کچھ زیادہ ہی کر دیا ہے۔ لیکن جناب، خاموشی توڑنا تو دور کی بات، یہاں تو پولیس ایسے بے نیاز ہو چکی ہے جیسے کچھ ہوا ہی نہ ہو۔ یعنی “تشدد؟ کون سا تشدد؟ یہ سب تو آپ کے ذہن کا وہم ہے۔” اور اگر کوئی بضد ہو کہ نہیں، مظلوموں کی چیخیں تو خود گواہی دے رہی ہیں، تو جواب ملتا ہے: “ارے بھائی، چیخ و پکار تو ہر شکست خوردہ سیاستدان کرتا ہے، یہ کون سی نئی بات ہے؟اب سوال یہ ہے کہ آخر پاکستان میں سیاسی کارکن ہونا اتنا بڑا جرم کب بن گیا؟ یا شاید یہ نیا “ریاستی نصاب” ہے جس کے تحت صرف مخصوص نظریے کے لوگوں کو سیاست کرنے کی اجازت دی گئی ہے، باقی سب کے لیے یا تو جیلیں مخصوص ہیں، یا پھر پولیس کا “سلوک”۔ الیکشن کمیشن، عدلیہ، اور دیگر متعلقہ ادارے اس پورے تماشے میں ایسے خاموش ہیں جیسے یہ سب کسی اور ملک میں ہو رہا ہو۔اور ہاں، جمہوریت کی سب سے بڑی برکت یہ ہے کہ اس میں ہر چیز “قانونی” نظر آتی ہے۔ فارم 47 کے ذریعے جمہوری شکست” بھی قانونی، پولیس کا تشدد بھی قانونی، اور عوام کو دھوکہ دینا بھی “انتخابی عمل” کا حصہ۔ بس غلطی یہ ہے کہ عوام کو اب بھی لگتا ہے کہ ان کے ووٹ کی کوئی عزت ہے۔ بھائی، اب تو جمہوریت کا مطلب ہے کہ بس “برداشت کرو”۔ آپ کو ووٹ ڈالنے کی اجازت دی گئی، یہ کیا کم ہے؟ یہ تھوڑی کہا تھا کہ آپ کو ووٹ گننے کی اجازت بھی ہو گی؟حکومت کی عدم برداشت کا یہ عالم ہے کہ اب سیاسی کارکن احتجاج تک نہیں کر سکتے۔ تو بھئی، یہ بتا دیا جائے کہ اگر کوئی جیت کر بھی ہار جاتا ہے، تو وہ آخر کرے کیا؟ جمہوریت میں تو احتجاج کرنے کا حق ہوتا ہے، مگر یہاں جمہوریت ایک “VIP کلب” بن چکی ہے، جس میں صرف وہی لوگ داخل ہو سکتے ہیں جو ریاستی منظوری کے ساتھ آئیں۔ باقی سب کے لیے “جمہوری لاٹھی” اور “جمہوری ہتھکڑیاں” حاضر ہیں۔یہ وقت ہے کہ عوام اس ظلم کے خلاف کھڑے ہوں۔ سیاسی جماعتوں کو چاہیے کہ وہ اپنی نظریاتی لڑائیوں سے نکل کر اصل جنگ پر توجہ دیں: یعنی جمہوریت کو بچانا۔ کیونکہ اگر آج ایک جماعت کے کارکنوں پر تشدد کو جائز مان لیا گیا، تو کل ہر مخالف آواز کو اسی ریاستی طاقت کے ذریعے دبایا جائے گا۔ تاریخ گواہ ہے کہ جب کسی قوم میں ظلم کو خاموشی سے برداشت کرنے کا رجحان پیدا ہو جائے، تو پھر وہ قوم صرف جمہوری تشدد کی شکار نہیں بنتی، بلکہ اپنی آزادی بھی کھو دیتی ہے۔آخر میں حکومت کو ایک مفت مشورہ: اگر واقعی عوام کو سیاست سے اتنی ہی دور رکھنا ہے، تو صاف کہہ دیں کہ “ووٹ دینا جرم ہے، سیاست کرنا بغاوت ہے، اور جیت کر خوش ہونا ناقابلِ معافی گناہ!” تاکہ کم از کم لوگ پہلے ہی سمجھ جائیں کہ اس ملک میں جمہوریت کے نام پر جو کھیل کھیلا جا رہا ہے، وہ دراصل “جمہوری بادشاہت” کا نیا ورژن ہے، جہاں عوام کے ووٹ کی حیثیت کسی کاغذی ٹشو سے زیادہ نہیں!