آج کی تاریخ

زیادتی، تشدد، دھوکا اور دھکے، کرن انصاف کے لیے دربدر، پولیس حکام سے 13 سوال

ملتان (عوامی رپورٹر) تھانہ بستی ملوک کے علاقے میں اینٹوں کے بھٹے کے مالک اور اس کے ساتھیوں کی طرف سے اجتماعی زیادتی اور سگریٹوں سے جسم داغے جانےکے اذیت ناک واقعہ کا شکار کرن نامی 14 سالہ لڑکی انصاف کے حصول کے لیے اعلیٰ پولیس افسران کے دفاتر کے درمیان شٹل کاک بن گئی۔ آر پی او آفس، سی پی او آفس اور ایس ایس پی آپریشن کے دفاتر کے درمیان لگاتار تین دن تک انصاف کے حصول کے لیے دھکے کھا رہی ہے۔ اس ظلم کے حوالے سے جو تفصیلات سامنے آئی ہیں اور جو سوالات پیدا ہوئے ہیں وہ کچھ اس طرح سے ہیں۔ (1)ملزم جعفر حسین ولد اکرم جو 26 جنوری کا نکاح نامہ پیش کر رہا ہے۔ روزنامہ قوم کی طرف سے شجا ع آباد سے حاصل کی گئی معلومات کے مطابق یہ نکاح نامہ جعلی ہے اور پچھلی تاریخوں میں تیار کیا گیا ہے۔ کیا پولیس نے نکاح نامے کے گواہوں کو طلب کیا؟(2) نکاح شجاع آباد میں کیوں ہوا کیا ملتان شہر کی حدود میں نکاح خواں کم پڑ گئے تھے؟۔ 3۔ نکاح کے بعد لڑکی کی رخصتی اسی وقت کیوں نہ ہوئی ۔جعفر ولد اکرم کے نکاح نامے پر پہلی بیوی اور اس کے تین بچوں کا ذکر ہے یا نہیں اگر نہیں تو کیوں نہیں؟ (4 ) کیا عدالت میں کوئی ویڈیو بیان ریکارڈ کروایا گیا؟ (نہیں) کیونکہ بچی کو ڈرا دھمکا کر انگوٹھے سائن کروائے گئے؟ (5) تشدد کے واضح ثبوت بچی کے جسم پر سگریٹ کے جلنے کے متعدد واضح نشانات ہیں جو کوئی بھی پولیس افسر ملاحظہ کر سکتے ہیں۔(6)۔ 26 جنوری والا نکاح نامہ اگر اصل ہوتا تو اس وقت بچی سے نکاح کے بعد فوری طور پر اپنے والدین کے خلاف عدالت میں تحفظ کے لیے رٹ پٹیشن دائر کیوں کرتی؟ کیونکہ یہ جھوٹی دستاویزات بعد میں اجتماعی زیادتی اور تشدد کے الزام سے بچنے کے لیے تیار کی گئی۔(7)۔ جعلی نکاح نامہ تیار کرنے والے عناصر کے خلاف بھی کیا کارروائی ہوگئی؟ (8)۔ 12 اپریل کو والدین کے خلاف ایک فرضی رٹ پٹیشن اس وجہ سے کروائی گئی کہ زنا کے مقدمے سے بچا جا سکے اور جو بچی کے جسم پر تشدد کیا گیا ہے اس سے بھی بچا جا سکے (9)۔نکاح نامہ اصلی تھا اور درست تھا تو اتنی جلدی کیا تھی نکاح نامے کو طلاق نامے میں تبدیل کرنے کی؟ (10)۔ بچی 12 اپریل کو والدین کے خلاف خاوند کے ساتھ مل کر پٹیشن دائر کرتی ہے اور 17 اپریل کو اس کا والد صلح کرکے طلاق کا اسٹام تحریر کر دیتا ہےکیا یہ واضح تضاد نہیں؟(11) ۔کیا ملزمان نے عبوری ضمانتیں کروائیں؟ ملزمان تو تھانہ میں تفتیشی افسر ظفر ہراج کے ساتھ بیٹھ کر بوتلیں پیتے رہے ہیں یہی وجہ ہے کہ ملزمان بچی کے ساتھ اجتماعی زیادتی کر چکے تھے اس سے بچنے کے لیے والد کو ڈرا دھمکا اور پیسے دے کر اس سے سہولت کاری کروائی اور اسٹام میں بھی واضح تحریر کروایا کہ یہ لوگ ملزمان کے خلاف پولیس میں کوئی کارروائی نہیں کریں گے۔ (12)۔کیا اپنے ظالمانہ اقدامات تشدد اور اجتماعی زیادتی جیسے سنگین جرم سے بچنے کے لیے تھانہ بستی ملوک کے سب انسپکٹر ظفر ہراج نے ملزمان سے مک مکا کیا ہے؟ بھاری رشوت وصول کی؟ اور پولیس نے انہی اسٹام پیپرز کو بنیاد بنا کر یک طرفہ مقدمہ خارج کر دیا جو پولیس کے اعلی افسران کے لیے بھی ایک سوالیہ نشان اور لمحہ فکریہ ہے۔(13) ۔کیا یہ اسٹام پیپر کسی پنچایت میں تحریر ہوا؟ یہ بھی الگ سے ایک دردناک کہانی ہے۔ اس اسٹام پیپر کے تحریر ہونے کے بعد 20 اور 21 اپریل کی رات کو ملزمان بچی کو بے ہوشی کی حالت میں خالہ کے گھر چھوڑ گئے۔ بستی ملوک پولیس نے مقدمہ درج کر لیا پھر متاثرہ بچی کے ورثہ سے پانچ لاکھ روپے ڈی این اے اور دوسرے اخراجات کی مد میں ایس ایچ او نے ازخود طلب کیے اور پیسے نہ ملنے پر انصاف فروخت ہو گیا؟ ایک معصوم بچی کی عزت جو تار تار ہوئی ہو گئی۔ تفتیشی نے ملزمان سے ڈیل کر کے پرچہ یک طرفہ طور پر کیسے خارج کر دیا؟ ابھی تک نہ اخراج رپورٹ دے رہا ہے کبھی کہتا ہے کہ آپ کا وقوعہ قطب پور تھانے کا بنتا ہے کبھی کہتا ہے آپ کے والد نے صلح کر لی ہے۔ کیا بچی سے بھی تفتیشی یا پولیس کے کسی اعلیٰ افسر نے آٹھ دن گزرنے کے باوجود پوچھا کہ تمہارے ساتھ کیا ظلم ہوا ہے؟ کیسے نکاح ہوا ہے؟ کہاں کہاں رہی ہو؟ اور کیا کیا واقعات ہوئے ہیں؟ کیا اس کے جسم پر تشدد کے نشانات بھی کسی نے ملاحظہ کیے ہیں؟ اگر کوئی بھی پولیس کا درد دل رکھنے والا افسر بچی کے جسم پر سگریٹ کے داغنے کے نشان دیکھ لیتا تو انصاف ضرور کرتا مگر افسوس پیسے کی جیت ہوئی اور انصاف کی ہار ہوئی ۔اب متاثرہ کرن بی بی کے مطابق میرے اور میرے ورثاکی جان کو ملزمان کے ساتھ ساتھ بستی ملوک پولیس سے بھی شدید خطرہ ہے۔ وہ مجھے مار ڈالیں گے یا اغوا کر لیں گے۔ مجھے انصاف فراہم کیا جائے۔ ایڈیشنل آئی جی جنوبی پنجاب، آر پی او ملتان میری درد مندانہ اپیل سنیں مجھے اپنی رعایا سمجھیں اور مجھے انصاف فراہم کرنے کے لیے اقدامات کریں۔

شیئر کریں

:مزید خبریں