آج کی تاریخ

خون بہتا رہا

غزہ کی پٹی ایک بار پھر انسانی المیے کا مرکز بن چکی ہے۔ اسرائیل کی حالیہ جارحیت نے ظلم کی جو داستان رقم کی ہے، وہ تاریخ میں سیاہ حروف میں لکھی جائے گی۔ تازہ اطلاعات کے مطابق، غزہ کی وزارتِ صحت نے تصدیق کی ہے کہ اسرائیلی حملوں میں اب تک 50,021 فلسطینی شہید ہو چکے ہیں، جن میں ایک بڑی تعداد خواتین، بچوں اور بزرگوں کی ہے۔ صرف گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران 41 افراد کو جان سے ہاتھ دھونا پڑا، جب کہ 61 افراد شدید زخمی ہوئے۔یہ اعداد و شمار محض شماریاتی رپورٹنگ نہیں، بلکہ ہر ایک ہندسہ ایک دل دہلا دینے والی کہانی کا مظہر ہے۔ زخمیوں کی مجموعی تعداد 113,274 سے تجاوز کر چکی ہے، اور ان میں بھی بہت سے لوگ وہ ہیں جو زندگی اور موت کے درمیان جھول رہے ہیں، کیونکہ اسپتالوں کے پاس نہ تو وسائل ہیں، نہ بجلی، اور نہ دوا۔ کئی متاثرین اب بھی ملبے تلے دبے ہوئے ہیں، جہاں تک ریسکیو ٹیمیں بھی نہیں پہنچ پا رہیں۔ یہ صرف بمباری نہیں، انسانیت کے خلاف ایک مسلسل حملہ ہے۔غزہ، جو پہلے ہی دنیا کی سب سے بڑی کھلی جیل کے طور پر پہچانی جاتی ہے، اب مکمل طور پر انسانی حقوق کے قبرستان میں تبدیل ہو چکی ہے۔ ہر گلی، ہر دیوار اور ہر کھڑکی خون سے سرخ ہے۔ بچوں کی چیخیں، ماؤں کی آہیں، اور کھنڈرات میں گونجتی اذانیں ایک بے بسی کا نوحہ ہیں—ایسا نوحہ جسے شاید دنیا سننا ہی نہیں چاہتی۔کیا دنیا کی آنکھیں بند ہو چکی ہیں؟ کیا اقوامِ متحدہ کے الفاظ صرف رپورٹوں کی حد تک رہ گئے ہیں؟ عالمی برادری کی بےحسی نے ظالم کو مزید بےخوف کر دیا ہے۔ یہ المیہ محض جنگی تنازع نہیں، بلکہ ایک انسانی بحران ہے—ایسا بحران جو نسل کشی کی سرحدوں کو چھو رہا ہے۔اسرائیل، جو اپنی ہر کارروائی کو “دفاعی اقدام” کا نام دیتا ہے، حقیقت میں جارحیت اور طاقت کے نشے میں چور نظر آتا ہے۔ اس کی بمباریوں کا ہدف کوئی عسکری تنصیب نہیں، بلکہ عام شہری، اسکول، اسپتال اور پناہ گزین کیمپ ہیں۔ اب تک کی تباہی سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ یہ صرف زمینی حملہ نہیں، ایک مکمل منصوبہ بند قتلِ عام ہے—جس کا مقصد فلسطینی شناخت، تہذیب، اور مستقبل کو صفحۂ ہستی سے مٹا دینا ہے۔اسرائیلی دعووں کے برخلاف، ہلاک ہونے والوں کی اکثریت غیر مسلح شہری ہیں۔ کئی خاندان مکمل طور پر ختم ہو چکے ہیں، اور کچھ مائیں ایسی بھی ہیں جنہوں نے اپنے تمام بچے ایک ہی حملے میں کھو دیے۔ یہ حالات ایک لمحۂ فکریہ ہیں، خاص طور پر اُن لوگوں کے لیے جو انسانیت، انصاف اور آزادی کے بلند دعوے کرتے ہیں۔مسلم دنیا کی خاموشی نے بھی بے حسی کی نئی مثال قائم کی ہے۔ بعض عرب ریاستیں سیاسی و معاشی مفادات کے تحت اسرائیل سے تعلقات بحال کر چکی ہیں، جبکہ کچھ صرف رسمی مذمتی بیانات تک محدود ہیں۔ کہیں سے کوئی عملی اقدام سامنے نہیں آ رہا۔ او آئی سی کی میٹنگز اور قراردادیں ایک تماشہ معلوم ہوتی ہیں، جن کا مقصد صرف وقت گزاری ہے۔دوسری جانب، مغربی میڈیا کا رویہ حیران کن حد تک جانبدار اور منافقانہ ہے۔ “دونوں طرف کے نقصانات” کے نام پر ایک جھوٹی مساوات پیدا کی جاتی ہے، جبکہ حقیقت یہ ہے کہ ایک طرف دنیا کی جدید ترین جنگی مشینری ہے، اور دوسری طرف محصور و نہتے عوام۔ جو تصویر اسرائیلی میڈیا اور مغربی نشریاتی ادارے دکھاتے ہیں، وہ سچائی کو مسخ کر کے پیش کرتے ہیں۔ اس میڈیا وار میں بھی فلسطینیوں کا خون مسلسل بہایا جا رہا ہے—لفظوں کے خنجر سے۔اب سوال یہ ہے: ہم کہاں کھڑے ہیں؟ کیا ہم صرف سوشل میڈیا پر تصویر لگانے، ہیش ٹیگ چلانے، اور دعائیں کرنے تک محدود ہیں؟ یا واقعی ہم اس ظلم کے خلاف عملی طور پر کچھ کرنا چاہتے ہیں؟ اگر دنیا کے عوام بائیکاٹ، احتجاج، اور عالمی دباؤ کے ذریعے اسرائیلی جارحیت کو روکنے کی مہم چلائیں تو حالات بدل سکتے ہیں۔پُرامن احتجاج، بائیکاٹ، شعور بیداری، اور انسانی حقوق کی تنظیموں کو مضبوط بنانا وقت کی ضرورت ہے۔ طلباء، فنکار، اساتذہ، صحافی، اور عام شہری—سب کو اپنے اپنے دائرہ کار میں آواز بلند کرنی چاہیے۔ خاموشی اب جرم بن چکی ہے۔ اگر ہم نے آج نہ بولے، تو کل جب تاریخ ہم سے سوال کرے گی، تو ہمارے پاس صرف ندامت ہو گی۔غزہ کا خون صرف فلسطینیوں کا نہیں، پوری انسانیت کا خون ہے۔ ہر شہید ایک چیخ ہے، ہر زخمی ایک سوال ہے، اور ہر ملبہ ایک گواہ ہے۔ دنیا اگر واقعی امن چاہتی ہے تو اسے فلسطین سے انصاف شروع کرنا ہو گا۔ورنہ خون بہتا ہی رہے گا… اور ضمیر سوتے ہی رہیں گے۔

ریاستی موقف مقدم

بلوچستان میں جاری شورش اور ریاستی ردِعمل پر مختلف آرا سامنے آ رہی ہیں، لیکن یہ امر طے شدہ ہے کہ پاکستان کی خودمختاری، سلامتی اور داخلی استحکام پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جا سکتا۔ جہاں بات ریاستی عمل داری کی ہو، وہاں جذباتی بیانیوں یا بیرونی مطالعاتی حوالوں سے زیادہ زمینی حقائق اور قومی مفادات کو اہمیت دی جاتی ہے۔حالیہ دنوں میں RAND کارپوریشن کی رپورٹ Paths to Victory کو بنیاد بنا کر بعض حلقے یہ تاثر دے رہے ہیں کہ طاقت کے ذریعے شورش دبانا مؤثر حکمت عملی نہیں۔ یہ نقطہ نظر نہ صرف یک طرفہ ہے، بلکہ پاکستان جیسے ریاستی سیاق میں غیر موزوں بھی۔ ایسے ممالک میں جہاں بغاوت کو بیرونی حمایت حاصل ہو، جہاں شورش کے پیچھے منظم نیٹ ورکس اور سرحد پار محفوظ ٹھکانے ہوں، وہاں صرف “سیاسی مکالمہ” ہی کافی نہیں ہوتا۔پاکستانی ریاست نے ہمیشہ امن کو ترجیح دی ہے۔ بلوچستان میں کئی مرتبہ سیاسی عمل کی بحالی، ترقیاتی پیکجز اور عام معافی کی پیشکش بھی کی گئی، لیکن ان اقدامات کے جواب میں شدت پسندی کم ہونے کے بجائے نئے انداز میں سامنے آئی۔ ریاست جب مشروط مذاکرات، جامع اصلاحات اور ترقیاتی منصوبے پیش کرتی ہے، اور دوسری طرف سے انہیں عسکری کمزوری سمجھا جاتا ہے، تو پھر طاقت کا استعمال ناگزیر ہو جاتا ہے۔یہ بات بھی سمجھنے کی ضرورت ہے کہ RAND جیسی امریکی تھنک ٹینکس کی رپورٹس مخصوص بین الاقوامی سیاق و سباق میں تیار کی جاتی ہیں۔ ان میں شامل 71 شورشوں کا تجزیہ ان ممالک کے حالات پر مبنی ہے جہاں داخلی بغاوتیں زیادہ تر مقامی محرکات کی بنیاد پر ابھریں۔ پاکستان کے تناظر میں معاملہ صرف مقامی شکایات کا نہیں، بلکہ کئی بار ریاستِ مخالف بیانیے، غیر ملکی مفادات اور دہشت گردی سے جڑا ہے۔ RAND رپورٹ میں ان پیچیدگیوں کا ذکر نہ ہونا ہی اس کی سیاسی و جغرافیائی حد بندی کو ظاہر کرتا ہے۔ریاستی پالیسی کا ہدف شورش کو کچلنا نہیں بلکہ قانون کی عمل داری بحال کرنا ہے۔ جب کسی علاقے میں ریاستی اداروں پر حملے ہوں، معصوم شہریوں کو نشانہ بنایا جائے، اور آئینی نظام کو چیلنج کیا جائے، تو ایسے حالات میں ریاستی رٹ کو بحال کرنا اولین ترجیح بن جاتا ہے۔ طاقت کا استعمال، اگر قانون کے دائرے میں ہو، تو نہ صرف جائز ہے بلکہ ریاستی فرض ہے۔بلوچستان میں ریاستی اداروں کا واضح مؤقف ہے: ہم سیاسی مفاہمت کے لیے ہمیشہ تیار ہیں، مگر بندوق کی سیاست کو قبول نہیں کیا جا سکتا۔ سیاسی عمل وہاں کامیاب ہوتا ہے جہاں امن ہو، اور امن کے لیے سیکیورٹی ناگزیر ہے۔ ایسے میں جو عناصر بندوق کے زور پر نظام کو یرغمال بنانا چاہتے ہیں، ان کے ساتھ محض مکالمے سے معاملات حل نہیں ہوتے۔اس بحث میں ایک اور پہلو قابل غور ہے۔ وہ عناصر جو RAND رپورٹ یا اس جیسے دیگر بیرونی حوالوں کو بنیاد بنا کر ریاستی پالیسی پر سوال اٹھاتے ہیں، وہ خود ان رپورٹوں کے مکمل سیاق و سباق کو پیش نہیں کرتے۔ یہ رپورٹس محض تحقیقی مواد ہیں، پالیسی سازی کے لیے قطعی رہنما اصول نہیں۔ ان کا مقصد مخصوص مثالوں کا تجزیہ ہوتا ہے، جسے من و عن کسی اور ملک پر لاگو کرنا نہ علمی دیانت ہے، نہ عملی امکان۔پاکستان کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنی داخلی خودمختاری، زمینی حقائق اور سلامتی کے تقاضوں کو مدنظر رکھ کر پالیسی بنائے، نہ کہ بین الاقوامی اداروں کے عمومی تجزیات کی روشنی میں۔ بلوچستان میں سیکیورٹی فورسز کی قربانیاں، تعمیراتی منصوبے، اور سیاسی کوششیں کسی بھی بین الاقوامی رپورٹ سے کہیں زیادہ اہم اور قابلِ قدر ہیں۔ریاست کی ذمہ داری صرف شورش ختم کرنا نہیں، بلکہ نظام کو آئینی دائرے میں واپس لانا ہے۔ سیاسی مفاہمت ایک اہم راستہ ضرور ہے، مگر یہ صرف اسی وقت ممکن ہے جب تمام فریق آئینی حدود کو تسلیم کریں۔ جو عناصر آئینی نظام سے باہر، طاقت کے زور پر بات کرنا چاہتے ہیں، ان کے ساتھ سنجیدہ مکالمہ ممکن نہیں۔آخر میں یہ واضح کرنا ضروری ہے کہ بلوچستان پاکستان کا حصہ ہے، اور وہاں کے عوام کو ریاست نے کبھی تنہا نہیں چھوڑا۔ جو بھی حقیقی شکایات ہیں، ان کے حل کے لیے وفاق اور صوبائی حکومتوں کی کوششیں جاری ہیں۔ لیکن ریاستی رٹ پر سوال اٹھانے والوں کے ساتھ نرمی کا مطلب اپنی آئینی حاکمیت سے دستبردار ہونا ہے، جس کی اجازت کوئی بھی ریاست نہیں دے سکتی۔ریاستی پالیسی کی کامیابی کا انحصار صرف طاقت یا صرف مفاہمت پر نہیں، بلکہ ان دونوں کے متوازن استعمال پر ہوتا ہے۔ جو قومیں صرف طاقت کے بل پر امن قائم کرنے کی کوشش کرتی ہیں، وہاں مزاحمت مستقل رہتی ہے، اور جو صرف مفاہمت پر انحصار کرتی ہیں، وہ کمزوری کا تاثر دیتی ہیں۔ پاکستان نے ہمیشہ کوشش کی ہے کہ بلوچستان جیسے حساس معاملات میں یہ توازن برقرار رکھا جائے—جہاں شدت پسندی ہو، وہاں قانون حرکت میں آئے، اور جہاں شکایت ہو، وہاں بات چیت کی گنجائش موجود رہے۔یہ بھی فراموش نہیں کیا جانا چاہیے کہ بلوچستان میں صرف شورش کی داستان نہیں، بلکہ ترقی، تعلیم، صحت اور روزگار کے سینکڑوں منصوبے بھی موجود ہیں جنہیں نظرانداز کرنا زیادتی ہوگی۔ بلوچ عوام کی اکثریت آج بھی امن، تعلیم اور معاشی مواقع کی خواہاں ہے۔ انہیں ایک محدود اور پرتشدد گروہ کی سرگرمیوں سے جوڑنا انصاف نہیں۔ یہی وہ اکثریت ہے جسے ریاستی پالیسی کا مرکز بنایا جانا چاہیے، تاکہ وہ خود بدامنی کو مسترد کرے اور ترقی کا حصہ بنے۔ریاست کو یہ بات مسلسل واضح رکھنی چاہیے کہ پاکستان کے آئینی ڈھانچے میں کسی بھی علاقے، قوم یا برادری کے لیے مکمل تحفظ، شناخت اور ترقی کے برابر مواقع موجود ہیں۔ ان حقوق کے حصول کے لیے آئینی راستے موجود ہیں، جن پر تمام سیاسی و سماجی فریقوں کو مکمل آزادی حاصل ہے۔ جو لوگ ان راستوں کو چھوڑ کر ہتھیار اٹھاتے ہیں، وہ صرف اپنے نہیں، پوری قوم کے مفادات کو نقصان پہنچاتے ہیں۔آگے بڑھنے کے لیے ریاست کو اپنے سیکیورٹی اداروں کے ساتھ ساتھ سیاسی قیادت، انتظامیہ، اور سول سوسائٹی کو ایک صفحے پر لانا ہوگا۔ یہ ایک مشترکہ قومی ہدف ہے، نہ کہ صرف کسی ایک ادارے کی ذمہ داری۔ داخلی استحکام، خارجی عزت، اور معاشی بحالی—یہ سب اسی وقت ممکن ہیں جب داخلی انتشار کا خاتمہ ہو۔بلوچستان میں پائیدار امن کے لیے ریاست کو سخت پیغام بھی دینا ہے اور کھلے دروازے بھی رکھنا ہیں۔ شدت پسندوں کے لیے قانون کی گرفت اور عام شہری کے لیے مفاہمت، ترقی اور تحفظ—یہی وہ اصول ہیں جو ایک ذمہ دار ریاست کو درکار ہوتے ہیں، اور یہی اصول پاکستان نے ہمیشہ اپنائے ہیں۔ریاستی موقف پر بحث کی گنجائش موجود ہے، لیکن ریاستی وجود پر نہیں

عمل کی گھڑی

پاکستان کی معیشت مسلسل جمود کا شکار ہے۔ ساختی مسائل، پالیسی کی سستی، اور کمزور ادارہ جاتی کارکردگی نے قومی معیشت کو نازک موڑ پر لا کھڑا کیا ہے۔ منصوبہ بندی کے وفاقی وزیر احسن اقبال کی حالیہ گفتگو اگرچہ ماضی کی طرح مسائل کی نشان دہی پر مشتمل ہے، مگر کم از کم یہ تسلیم تو کیا گیا کہ صرف وقتی انتظامات سے معیشت کا بحران حل نہیں ہو گا۔ملکی معیشت کے بنیادی مسائل، جیسے بجٹ خسارہ، محدود ٹیکس نیٹ، اور توانائی کا بحران، برسوں سے زیر بحث ہیں۔ مگر ان پر سنجیدہ، دیرپا اور نتیجہ خیز پیش رفت نہ ہونے کے باعث ہر حکومت انہیں اپنی مدت میں بھی دہراتی ہے۔ اصل ضرورت اب محض تشخیص کی نہیں بلکہ فیصلہ کن اقدام کی ہے۔برآمدات کے محاذ پر پاکستان کی کارکردگی بدستور تشویشناک ہے۔ گزشتہ دہائی میں برآمدات کا حجم مجموعی قومی پیداوار کے تناسب سے مسلسل کم ہوا ہے۔ پاکستان کی معیشت اب بھی بنیادی کپڑے اور کم ویلیو مصنوعات پر انحصار کر رہی ہے۔ اس یک رخی پر انحصار نے معیشت کو کرنسی کی اتار چڑھاؤ اور بیرونی جھٹکوں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت ویلیو ایڈڈ مصنوعات، ٹیکنالوجی پر مبنی صنعتوں، اور عالمی سپلائی چین میں شرکت کو ترجیح دے۔جنوبی ایشیا کے کئی ممالک، خصوصاً ویتنام اور بنگلہ دیش، اس سمت میں قابل ذکر پیش رفت کر چکے ہیں۔ پاکستان بھی یہی راستہ اپنا سکتا ہے، بشرطیکہ کاروباری آسانی، کسٹمز کے طریقہ کار میں سادگی، اور برآمدکنندگان کو ہدفی مراعات فراہم کی جائیں۔توانائی کے بحران نے صنعتی پیداوار کو مفلوج کر رکھا ہے۔ مہنگی بجلی، لوڈشیڈنگ، اور بجلی کی ترسیل میں عدم استحکام نے صنعتکاروں کا اعتماد کمزور کیا ہے۔ توانائی کے شعبے میں انفراسٹرکچر پر سرمایہ کاری، قابل تجدید توانائی کے ذرائع کا فروغ، اور بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں کی اصلاحات ناگزیر ہیں۔ سرکلر ڈیٹ کے مسئلے کو بھی تاخیر کے بغیر حل کرنا ہو گا، ورنہ توانائی کے شعبے میں اعتماد بحال نہیں ہو سکے گا۔غیر ملکی قرضوں اور آئی ایم ایف پروگراموں پر حد سے زیادہ انحصار وقتی ریلیف تو دے سکتا ہے، لیکن یہ کسی بھی معیشت کی بنیاد نہیں ہو سکتا۔ ٹیکس نیٹ کا پھیلاؤ، دستاویزی معیشت کو فروغ دینا، اور بالواسطہ ٹیکسوں پر انحصار کم کرنا وہ اقدامات ہیں جو پاکستان کو پائیدار مالیاتی استحکام کی طرف لے جا سکتے ہیں۔وزیر منصوبہ بندی کی جانب سے دستاویزی معیشت پر زور قابل ستائش ہے، مگر اصل سوال یہ ہے کہ اس کا نفاذ کیسے اور کب ہو گا؟ ڈیجیٹل ادائیگیوں کو فروغ دے کر، کاروباری لین دین کی نگرانی بڑھا کر، اور چھوٹے تاجروں کو مراعات دے کر ٹیکس نیٹ کو وسعت دی جا سکتی ہے۔زرعی شعبہ، جو اب تک پالیسیوں میں پیچھے رہا، درحقیقت معیشت کا بنیادی ستون ہے۔ اس شعبے میں جدید ٹیکنالوجی، آبپاشی کے بہتر نظام، اور چھوٹے کسانوں کو آسان قرضوں کی فراہمی سے ملکی پیداوار میں نمایاں اضافہ ممکن ہے۔ ساتھ ہی دیہی آمدن میں بہتری سے شہری ہجرت کا دباؤ بھی کم کیا جا سکتا ہے۔معاشی اصلاحات کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ سیاسی عدم استحکام ہے۔ بار بار کی حکومتوں کی تبدیلی، پالیسیوں کا تسلسل نہ ہونا، اور باہمی سیاسی محاذ آرائی نے معیشت کو مستقل دباؤ میں رکھا ہے۔ اب وقت آ گیا ہے کہ تمام سیاسی قوتیں معیشت پر کم از کم بنیادی اتفاق رائے قائم کریں، تاکہ اصلاحات کسی ایک جماعت کے ایجنڈے کے بجائے قومی مفاد کا حصہ بنیں۔خسارے، گرتے زرمبادلہ ذخائر اور قرضوں کا بڑھتا بوجھ محض مالیاتی مسائل نہیں، بلکہ ساختی خرابیاں ہیں۔ جب تک پیداوار اور برآمدات پر مبنی نمو کا ماڈل نہیں اپنایا جائے گا، وقتی اصلاحات دیرپا بہتری کا ذریعہ نہیں بن سکتیں۔احسن اقبال کی طرف سے مسائل کی نشاندہی ایک قدم ضرور ہے، مگر اب وقت تیزی سے گزر رہا ہے۔ ملک معاشی عدم استحکام کی جس نہج پر کھڑا ہے، وہاں مزید تاخیر کے متحمل نہیں ہو سکتا۔ اب حکومت کو الفاظ سے نکل کر عمل کی طرف بڑھنا ہو گا۔معروف ماہرِ معیشت پال رومر کا قول ہے کہ “بحران کو ضائع ہونے دینا سب سے بڑی غلطی ہے۔” پاکستان کے لیے موجودہ معاشی صورتحال ایک تنبیہ بھی ہے اور ایک موقع بھی۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ ریاستی قیادت اس موقع سے فائدہ اٹھاتی ہے، یا حالات مزید بگڑنے کے بعد ہمیں ایک اور بحران کا سامنا ہو گا۔تاہم، ان تمام اصلاحات کی راہ میں ایک سب سے بڑا سوالیہ نشان عملی نفاذ کی صلاحیت ہے۔ پاکستان کا انتظامی ڈھانچہ آج بھی بیوروکریٹک رکاوٹوں، پالیسی کی عدم تسلسل، اور کمزور رابطہ کاری کا شکار ہے۔ پالیسی سازی کے ساتھ ساتھ اس کی مؤثر عمل درآمد کے لیے ریاست کو ادارہ جاتی اصلاحات پر توجہ دینا ہو گی۔ خاص طور پر، نچلی سطح پر فیصلے لینے کے اختیارات کی منتقلی اور ضلعی سطح پر استعداد کار کی بہتری کے بغیر، ترقیاتی اہداف صرف کاغذی اعلانات بن کر رہ جائیں گے۔معاشی اصلاحات کے لیے عوامی اعتماد کی بحالی بھی ایک بنیادی ضرورت ہے۔ جب عام شہری کو نظر آئے گا کہ قربانی صرف اسے نہیں دی جا رہی بلکہ بالا دست طبقات، غیر دستاویزی معیشت کے بڑے کھلاڑی، اور مراعات یافتہ طبقے بھی قانون کے دائرے میں آ رہے ہیں، تب ہی وہ بھی نظام کا حصہ بننے کو تیار ہو گا۔ بصورت دیگر، ہر معاشی اقدام کو استحصالی تصور کیا جائے گا، اور اس کے خلاف مزاحمت پیدا ہو گی۔مزید برآں، نجی شعبے کے اعتماد کو بحال کرنا اور اسے شراکت دار کے طور پر شامل کرنا ہوگا۔ ریاست کا کام کاروبار کرنا نہیں، بلکہ ایسا ماحول مہیا کرنا ہے جس میں کاروبار پھلے پھولے۔ پبلک-پرائیویٹ پارٹنرشپ، صنعتی زونز کا قیام، اور ریگولیٹری ماحول کی بہتری جیسے اقدامات ہی طویل المدت سرمایہ کاری کی راہ ہموار کریں گے۔حکومت کو چاہیے کہ معاشی ترجیحات کو وقتی سیاسی تقاضوں سے الگ رکھے۔ بجٹ کا اجراء، ترقیاتی منصوبوں کی منظوری، ٹیکس اصلاحات—یہ سب وہ شعبے ہیں جو کسی بھی حکومت کی نیت اور سنجیدگی کا مظہر ہوتے ہیں۔ اب جب کہ وقت کم، اور چیلنج بڑے ہیں، تو حکومت کو ایسے فیصلے کرنا ہوں گے جو فوری طور پر غیر مقبول تو ہو سکتے ہیں، لیکن مستقبل کی معیشت کے لیے ضروری ہیں۔آخر میں، پاکستان کی معیشت کو بچانے کا ایک ہی راستہ ہے: استحکام، تسلسل اور احتساب۔ وقتی سیاسی مفادات کو قومی ترجیحات پر غالب نہ آنے دیا جائے۔ ایک مربوط، طویل المدت معاشی حکمت عملی تشکیل دی جائے جس پر ہر حکومت عمل درآمد کی پابند ہو۔ ایک ایسی معاشی دستاویز جو کسی بھی سیاسی جماعت کی نہیں، بلکہ ریاستِ پاکستان کی ہو۔یہ درست ہے کہ وزیر منصوبہ بندی کی گفتگو میں کچھ حقیقت پسندی جھلکتی ہے۔ مگر یہ وقت بیانات کا نہیں، فیصلوں کا ہے۔ حکومتی پالیسی کا رخ اگر درست سمت میں ہو، تو عوامی قربانیاں بھی نتیجہ خیز ثابت ہو سکتی ہیں۔ بصورتِ دیگر، وقت کا زیاں ہمیں اُس دہانے پر لا سکتا ہے جہاں اصلاح کی گنجائش باقی نہیں رہے گی۔اب گیند فیصلہ سازوں کے کورٹ میں ہے۔ قوم منتظر ہے کہ کب ریاست بیانات سے نکل کر نتائج کی طرف پیش قدمی کرتی ہے۔

شیئر کریں

:مزید خبریں