ملتان (کرائم سیل رپورٹ) ناجائز مقدمات، جعلی کارروائیاں، ظلم و جبر، ناجائز قبضے، ہاف فرائی، فل فرائی جیسی تمام تر اصطلاحات کے حوالے سے جنوبی پنجاب ہمیشہ سے سر فہرست رہا ہے اور ملک بھر کے پولیس افسران کے لیے جنوبی پنجاب ایک ایسا ہاٹ کیک ہے جسے ہر کوئی اپنی پسندیدہ غذا بنانا پسند کرتا ہے۔ پیپلز کالونی فیصل آباد سے ایک صنعت کار کو اغوا کیا جاتا ہے اور لودھراں جیسے ضلع میں ان کے خلاف پرچہ درج ہو جاتا ہے جہاں کبھی زندگی بھر میں مذکورہ صنعت کار نے قدم ہی نہیں رکھا ہوتا اور نہ ہی یہاں سے کسی شہری سے کوئی کاروبار کیا ہوتا ہے۔ کے پی کے میں تعینات ایک پولیس آفیسر کی مبینہ طور پر کسی خواجہ سرا سے جذباتی وابستگی اور شدت کی دوستی ہو جاتی ہے تو اس دوستی کو اپنے تک محدود رکھنے کے لیے مذکورہ پولیس افسر اس خواجہ سرا کے ایک اور دوست کو کے پی کے سے گرفتار کرکے پنجاب کے آخری ضلع رحیم یار خان بھجواتا ہے اور پھر تحصیل لیاقت پور کے تھانہ میں اس کے خلاف 19 کلو منشیات اور ناجائز اسلحے کا مقدمہ درج ہو جاتا ہے جو بعد ازاں جھوٹا ثابت ہوتا ہے مگر کسی کے خلاف کارروائی نہیں ہوتی اور کسی بھی ناجائز مقدمہ درج کرنے والے کو سزا نہیں ہوتی بلکہ سب کے سب اپنی پوزیشنیں انجوائے کرتے رہتے ہیں۔ ضلع خانیوال میں موجودہ ضلعی پولیس افسر اسماعیل کھاڑک کے دور میں تین مقدمات ایسے درج ہو چکے ہیں جن میں بے گناہوں پر اتنی بڑی تعداد میں منشیات ڈالی گئی ہیں کہ جن کی سزا کم سے کم سے کم عمر قید اور زیادہ سے زیادہ موت ہے۔ چار روز قبل خانیوال کے تھانہ مخدوم پور پہوڑاں میں محمد عدنان طفیل کو ایس ایچ او سے ریڈ کرنے کی وجہ پوچھنے جیسی گستاخی کا مرتکب ہونے پر اغوا کر لیا جاتا ہے پھر اس کی ٹانگ توڑ دی جاتی ہے اور جب ایکسرے میں پتہ چلتا ہے کہ اس کی ٹانگ چکنا چور ہو چکی ہے تو اسے علاج کروانے کی بجائے 11 کلو منشیات کے جھوٹے مقدمے میں گرفتار کر لیا جاتا ہے کہ باہر رہا تو پولیس کے خلاف کوئی نہ کوئی مقدمہ درج کرائے گا یا بیان بازی کرے گا لہٰذاایک فرضی کہانی گھڑی جاتی ہے اور ایک ایسا شخص جس نے زندگی میں کوئی جرم نہیں کیا سزائے موت جیسے جرم کا مرتکب قرار دے دیا جاتا ہے۔ملتان کے تھانہ مخدوم رشید کی پولیس ایک گھر میں ریڈ کرتی ہے جہاں مستری اور مزدور کنسٹرکشن کا کام کر رہے ہوتے ہیں۔ پولیس کے ہاتھ میں کچھ نہیں آتا تو مزدوروں کی موٹر سائیکلیں اٹھا کر گاڑی میں ڈال لی جاتی ہیں۔ ایک مزدور اپنی موٹر سائیکل چھڑوانے کے لیے ڈالے کے پیچھے بھاگتا ہے تو پولیس والے اسے گاڑی سے دھکا دیتے ہیں جس سے اس کی ہڈی ٹوٹ جاتی ہے تو پولیس داد رسی کےبجائے اسے اٹھا کر تھانے لے جاتی ہے کہ کہیں پولیس کے خلاف کارروائی نہ کرا دے اور پھر اس پر منشیات کا پرچہ دے دیتی ہے۔ ڈسٹرکٹ جیل ملتان میں اسے خون کی قے جاری ہو جاتی ہے تو اس کے ورثا روزنامہ قوم سے رابطہ کرتے ہیں۔ روزنامہ قوم کی طرف سے فوری طور پر آئی جی جیل خانہ جات میاں فاروق نذیر اور ڈی آئی جی جیل خانہ جات ملتان میاں محسن رفیق کو صورتحال سے آگاہ کیا جاتا ہے تو دونوں آفیسرز مذکورہ مظلوم قیدی کو فوری طور پر علاج کے لیے نشتر ہسپتال شفٹ کرا دیتے ہیں جہاں 15 دن کے دن رات علاج کے بعد اس کی جان بچتی ہے اور پھر جب اس صورتحال سے سیشن کورٹ کو آگاہی ہوتی ہے تو اسے ضمانت بھی نصیب ہو جاتی ہے۔ اسی قسم کا واقعہ تھانہ کچا کھوہ اور تھانہ تلمبہ میں بھی رونما ہو چکا ہے اور ابھی حال ہی میں بہاولپور کے علاقے اوچ شریف کی اقصیٰ بی بی کا واقعہ تو بہت ہی شرمناک ہے۔ اسے پولیس کا ایک ایس ایچ او غلط طور پر دہشت گردی میں ملوث کرتا ہے مگر ڈی ایس پی سے لے کر آر پی او بہاولپور تک سب کے سب ایس ایچ او کے اکلوتے گناہ میں اپنی بھرپور شرکت اور شمولیت اختیار کرکے اس ظلم میں اپنا حصہ ڈال کر روز محشر تک’’سرخرو‘‘ہو جاتے ہیں۔چار سال قبل ملتان سے ایک زمیندار کو اغوا کیا جاتا ہے پھر تھانے میں تشدد کرکے اس سے چیک بک پر دستخط کروائے جاتے ہیں اور بالاخر اس کی جان تب چھوٹتی ہے جب وہ اپنے بچوں کے لیے بنائے گئے ایک کنال کے گھر کو ایک ٹاؤٹ کے نام ٹرانسفر کر دیتا ہے۔ حال ہی میں ملتان کے ایک انتہائی کمرشل علاقے میں ایک ایس پی نے ایک گھر پر ناجائز قبضہ کیا اور اپنے تالے لگوا دیئے ہیں مگر انہیں کوئی پوچھنے والا نہیں۔ ایڈیشنل آئی جی جنوبی پنجاب کامران خان جو کہ اچھی شہرت کے حامل آفیسر ہیں، سے سوال تو بنتا ہے کہ کیا وہ بھی روز محشر اپنے پیٹی بند بھائیوں کے ظلم کے ساتھی بن کر پیش ہونا پسند کریں گے یا کسی ایماندار تفتیشی ٹیم پر مشتمل کوئی خصوصی سیل بنا کر اس قسم کے مظالم کی تحقیقات کروائیں گے اور اس ظلم کے سامنے بند باندھ پائیں گے یا ان کے میرٹ پر بھی یونیفارم کا غلبہ ہی رہے گا۔








