ملتان (سٹاف رپورٹر) ہائر ایجوکیشن کمیشن آف پاکستان کے چیئرمین ڈاکٹر مختار احمد کی جانب سے متعدد بار جاری کردہ ہدایات کے برخلاف ہونے والے سلیکشن بورڈ کی من پسند افراد کو منتخب کرنے اور ورکنگ پیپرز اور ایکسپرٹس کی رپورٹس کو ممبران کے ساتھ شیئر نہ کرنے کی اندرونی کہانیاں سامنے آ گئیں۔ جس سے بہا الدین زکریا یونیورسٹی ملتان کے غیر قانونی سلیکشن بورڈ پر متعدد سوالیہ نشان کھڑے ہو گئے۔ تفصیل کے مطابق وائس چانسلر ڈاکٹر زبیر اقبال اور رجسٹرار کی عارضی کرسی پر فائز ایڈیشنل رجسٹرار اعجاز احمد کی ملی بھگت سے بہا الدین زکریا یونیورسٹی ملتان کی تاریخ میں پہلی بار چیئرمین اور ڈائریکٹر حضرات سے نہ تو کسی قسم کا ورکنگ پیپر شیئر کیا گیا اور نہ ہی کسی قسم کی کوئی رپورٹ شیئر کی گئی اور ڈائریکٹ سلیکشن بورڈ میں بلا کر امیدواران کے انٹرویو شروع کروا د یئے گئے۔ کچھ ڈینز اور چیئرمین حضرات کی جانب سے امیدواران کی رپورٹس کا مطالبہ کیا گیا تو پوری یونیورسٹی کے امیدواران کی بائنڈنگ رپورٹس شیئر کر دی گئیں۔ ورکنگ پیپرز میں ڈیپارٹمنٹ کی ترتیب سے رپورٹس کے جو نمبر بتائے گئے وہ رپورٹس ڈینز اور چیئرمین حضرات کے لیے ایک مکمل بائنڈنگ سے ڈھونڈنا مشکل ہو گئے اور پھر تمام تر انحصار امیدواران کی جانب سے جمع کروائی گئی درخواستوں پر کر کے اپنے من پسند امیدواران کو منتخب کر لیا گیا۔ چونکہ وہ رپورٹس اور ورکنگ پیپرز ڈینز اور چیئرمین سے شیئر ہی نہ کیے گئے تھے تو ڈینز اور چیئرمینز کو اندھیرے میں رکھ کر انٹرویو منعقد کروانا اس سلیکشن بورڈ پر ایک سوالیہ نشان ہے اور ایک اور مصدقہ اطلاع کے مطابق سلیکشن بورڈ کے مستقل رکن سے امیدواران کی نمبر کے حساب سے ترتیب شیئر کی گئی تو وہ ترتیب بھی سلیکشن بورڈ کے انعقاد کے موقع پر بالکل تبدیل کر دی گئی۔ حیران کن طور پر امیدواران کے انٹرویو پر انحصار کرتے ہوئے ان سے بغیر کسی ڈاکیومنٹ کے ان کے انٹرویو کے دوران کی گئی باتوں کو من و عن تسلیم کیا گیا جو کہ میرٹ کے بالکل منافی ہے۔ مزید ایک ڈین صاحب کی جانب سے حاصل اطلاعات کے مطابق جب وائس چانسلر ڈاکٹر زبیر اقبال کو پتا چلا کہ ان کے امیدوار سلیکشن بورڈ میں منتخب نہ ہو سکیں گے تو وہیں پر اپنے من پسند افراد کو بیرون ملک ڈگری کا فائدہ دیتے ہوئے منتخب کر لیا گیا۔ ایک ڈائریکٹر کے مطابق اس غیر قانونی سلیکشن بورڈ میں اپنے من پسند شخص کو منتخب کروانے کے لیے گولڈ میڈلسٹ کا بھی بہانہ بنایا گیا۔ جبکہ حقیقتاً بیرون ملک ڈگری ہولڈرز اور گولڈ میڈلسٹ کے کسی قسم کے کوئی مارکس نہ رکھے گئے تھے اور ایسوسی ایٹ پروفیسر اور پروفیسر حضرات کے سلیکشن بورڈ رپورٹس کی بنیاد پر منعقد کئے جاتے ہیں۔ چنانچہ ڈینز، چیئرمین اور ڈا ئریکٹر حضرات کو یہ رپورٹس مہیا نہ کرنا سراسر قانون کے برخلاف اور سلیکشن بورڈ ممبران کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے مترادف ہے۔ یہاں بہا الدین زکریا یونیورسٹی ملتان کی تاریخ میں اس غیر قانونی سلیکشن بورڈ پر ایک اہم سوالیہ نشان یہ ہے کہ جن کیسز پر ریفری نے 1 یا 2 نمبر کی سفارش نہیں کی تو وہاں کونسا قانون لاگو ہو گا۔ کیونکہ ممبران کو مہیا کیے جانے والے ورکنگ پیپرز میں پوزیشنز واضح کی جاتی ہیں کہ کونسا امیدوار پہلے یا دوسرے نمبر پر موجود ہے۔ سلیکشن بورڈ خود سے بورڈ کے انعقاد کے موقع پر یہ فیصلہ نہیں کر سکتا۔ جن کیسز میں واضح طور پر یہ پوزیشنز لکھ دی جاتی ہے وہاں وہ پوزیشنز سلیکشن بورڈ تبدیل کرنے کا مجاز نہیں۔ تاہم واضح سفارشات کی غیر موجودگی میںایک واضح پوزیشن ریفری سے طلب کرنا نہایت ضروری ہیں۔نئی رپورٹس بھی طلب کرنی چاہئیں۔ بہا الدین زکریا یونیورسٹی ملتان کی اپنی سینڈیکیٹ کے فیصلے کے مطابق ایسوسی ایٹ پروفیسر اور پروفیسر حضرات کے انٹرویو نہیں ہوں گے اورنہ ہی انٹرویو کے کوئی مارکس شمار ہوں گے اور جو پوزیشنز ریفری کی جانب سے لگائی جا چکی ہوں گی ان پوزیشنز کو سلیکشن بورڈ اور سلیکشن بورڈ کے چیئرمین وائس چانسلر بھی اپنی مرضی سے تبدیل نہیں کر سکتے۔ روزنامہ قوم کو موصول ہونے والی اطلاعات کے مطابق ایگرونومی ڈیپارٹمنٹ کے ایسوسی ایٹ پروفیسر ڈاکٹر نعیم سرور کو ٹی ٹی ایس پروفیسر کے لیے ایک رپورٹ منفی آنے کی صورت میں مسترد کر دیا گیا۔ لائیو سٹاک اینڈ پولٹری پروڈکشن کے اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر حافظ محمد اسحاق سے ٹی ٹی ایس ایسوسی ایٹ پروفیسر کے عہدے پر پروموشن کے لیے وائس چانسلر مطمئن نہ ہو سکےاور ان 2 ٹی ٹی ایس حضرات نے بھی سلیکشن بورڈ کی کارروائی کو چیلنج کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے اس پر بہاالدین زکریا یونیورسٹی ملتان کی ٹی ٹی ایس کمیونٹی نے بھی شدید تحفظات کا اظہار کیا کہ ہائر ایجوکیشن کمیشن کی جانب سے تمام تر معیار پر پورا اترنے کے باوجود پروموشن نہ ہونے کی صورت میں منتخب لیڈرشپ کو سامنے آنا چاہیے۔ بہا الدین زکریا یونیورسٹی ملتان کے اس غیر قانونی سلیکشن بورڈ میں اس طرح کے کوئی بھی غیر قانونی کام ہوئے تو وہ قانون کے مطابق چیلنج بھی کیے جا سکیں گے۔ یاد رہے کہ یہ وہی سلیکشن بورڈ ہے کہ جس کے بارے میں ہائر ایجوکیشن کمیشن آف پاکستان کے چیئرمین ڈاکٹر مختار احمد واضح طور پر لکھ چکے ہیں کہ ہائر ایجوکیشن کمیشن آف پاکستان اس غیر قانونی سلیکشن بورڈ کی توثیق نہیں کرے گا اور گزشتہ سینڈیکیٹ کے انعقاد کے موقع پر ہائر ایجوکیشن کمیشن آف پاکستان کے ممبر ڈائریکٹر کوآرڈینیشن شاہزیب عباسی اپنے جاری کردہ لیٹر پر قائم رہتے ہوئے اس سلیکشن بورڈ پر اپنے تحفظات سے ہائر ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ کو آگاہ کر چکے ہیں۔ ہائر ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ کی ایڈیشنل سیکرٹری زاہدہ اظہر بھی ہائر ایجوکیشن کمیشن آف پاکستان کے جاری کردہ اس لیٹر کی حمایت کرتے ہوئے اس سلیکشن بورڈ کے بارے میں اپنے تحفظات سے آگاہ کر چکی ہیں۔ مگر چند اطلاعات کے مطابق پنجاب بھر کی یونیورسٹیوں میں ہائیر ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ کے ذریعے گورنر یا وزیر اعلیٰ سے منتخب ہر کر آنے والے مختلف وائس چانسلر خواتین و حضرات متعدد بار اپنی محفلوں میں اس بات کا ذکر کر چکے ہیں کہ سینڈیکیٹ کے سامنے ہائر ایجوکیشن کمیشن آف پاکستان اور ہائر ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ کی کوئی حیثیت نہیں۔ ایک ووٹ ہائر ایجوکیشن کمیشن آف پاکستان کا ہے اور ایک ووٹ ہا ئر ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ کا ہے۔
