ملتان (قوم ایجوکیشن سیل) بہاالدین زکریا یونیورسٹی (بی زیڈ یو) کے بااثر کلرک سرفراز کی جانب سے انتظامیہ کو طویل عرصے سے بلیک میل کیے جانے کے انکشاف کے بعد مزید سنگین الزامات منظرِ عام پر آ گئے ہیں۔ ذرائع کے مطابق سرفراز کلرک نے معروف سیاسی شخصیت جمشید دستی کی انتخابی مہم کے لیے جعلی تعلیمی اسناد کے حصول میں کلیدی کردار ادا کیا۔تفصیلات کے مطابق سرفراز نےایم این اے جمشید دستی کے لیے ایک ایسے غیر مجاز مدرسے سے ایم اے اسلامیات کی جعلی سند حاصل کی جو اس نوعیت کی اسناد جاری کرنے کا قانونی اختیار ہی نہیں رکھتا تھا۔ بعد ازاں اسی سند کی بنیاد پر جمشید دستی کو بہاالدین زکریا یونیورسٹی سے ایکوویلنس سرٹیفکیٹ دلوا دیا گیاجو کہ اس وقت منسوخ کر دیا گیا جب حقیقت کھل کر سامنے آ گئی۔ یونیورسٹی کو شکایت موصول ہونے پر باقاعدہ انکوائری کی گئی اور سرٹیفکیٹ منسوخ کر دیا گیا۔اس پر بھی باز نہ آتے ہوئے سرفراز کلرک نے جمشید دستی کے لیے اپنے تعلقات اور جعل سازی کے ذریعے اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور سے بی اے کی ڈگری نمبر 240537 (رول نمبر 23966، سال 2017) حاصل کرائی۔ بعد ازاں اسی جعلی تعلیمی بنیاد پر زکریا یونیورسٹی میں ایل ایل بی میں داخلہ دلوایا گیا اور رول نمبر 3063 کے تحت ایل ایل بی پارٹ اول بھی کامیاب کروایا گیا۔سرفراز کلرک کیونکہ ان پڑھ آدمی ہے اس نے بہاولپور اسلامیہ یونیورسٹی کی بی اے کی ڈگری تیار کرواتے وقت یہ بات مد نظر نہ رکھی کہ جمشید احمد ولد سلطان محمود کا جعلی اور فرضی ایف اے کا رزلٹ کارڈ سال 2020ء کا ہے اور بی اے کی ڈگری سال 2017ء کی ہے۔یہ تمام فراڈ اور جعل سازی سرفراز کلرک کی جانب سے اس لیے کی جاتی رہی تاکہ جمشید دستی کی تعلیمی قابلیت بظاہر قائم رہے اور وہ انتخابات میں حصہ لینے کے اہل قرار پائیں۔ تاہم حقائق کے افشا ہونے پر 22 جنوری 2021 کو انکوائری نمبر 562 کے تحت تحقیقات کا آغاز کیا گیا جس نے ان تمام غیر قانونی اقدامات کو بے نقاب کر دیا۔انکوائری کمیٹی جس میں شعبۂ فارمیسی کے پروفیسر ڈاکٹر محمد عزیر اور ڈاکٹر عمر چوہدری شامل تھے، نے اپنی تحقیقاتی رپورٹ میں انکشاف کیا ہے کہ جمشید دستی کی جگہ ایل ایل بی کے امتحانات میں کسی اور شخص نے شرکت کی۔ کمیٹی نے تحریری مواد کی جانچ اور لکھائی کا تقابلی جائزہ لیا، جس سے حقیقت بے نقاب ہو گئی اور جعل سازی کا ثبوت مل گیا۔ اس سنگین بدعنوانی کے پیشِ نظر متعلقہ نتیجہ منسوخ کر دیا گیا اور اس اقدام کو تعلیمی شفافیت کے فروغ کی جانب ایک اہم قدم قرار دیا جا رہا ہے۔یونیورسٹی انتظامیہ اور متعلقہ اداروں سے مطالبہ کیا جا رہا ہے کہ سرفراز کلرک کے خلاف فوری اور سخت قانونی کارروائی عمل میں لائی جائے تاکہ ادارے کی ساکھ کو مزید نقصان نہ پہنچے اور آئندہ ایسے عناصر تعلیمی نظام کو داغدار نہ کر سکیں۔
