آج کی تاریخ

جامعہ زکریا؛چیئرمین آئی آر معاملہ ،وی سی کے بغیر انکوائری فیصلے پر شکوک و شبہات

وائس چانسلرکاچیئرمین آئی آرکوہٹانے کانوٹیفکیشن

ملتان (سٹاف رپورٹر) لاہور ہائی کورٹ ملتان بینچ میں ہائر ایجوکیشن کمیشن کی ہدایات اور قواعد و ضوابط کے منافی زکریا یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر زبیر اقبال غوری کی جانب سے مخصوص پروفیسر حضرات کو اکاموڈیٹ کرنے کے لئے سلیکشن بورڈ کو چیلنج کرنے کی پاداش میں چیئر مین ڈیپارٹمنٹ آف انٹرنیشنل ریلیشنز ڈاکٹر طاہر اشرف کے خلاف بغیر کسی انکوائری کے مختلف الزامات لگا کر ان کو شعبہ کی سربراہی سے ہٹا دیا۔ 12 مارچ 2025 کو رجسٹرار بہا الدین زکریا یونیورسٹی ملتان کی جانب سے نوٹیفکیشن نمبر ACAD-8/IR/25/1866 جاری کیا گیا جس کے مطابق وائس چانسلر نے متعدد شکایات، بشمول انتظامی اور تعلیمی معاملات میں اختیارات کے غلط استعمال اور ہراسانی کی شکایت پر ڈاکٹر طاہر اشرف ایسوسی ایٹ پروفیسر/چیئرمین، شعبہ بین الاقوامی تعلقات کے خلاف درج ذیل نوٹیفکیشن جاری کیا ہے جس کے متن کا مفہوم یہ ہے کہ موجودہ بگڑتی ہوئی صورتحال اور حالات فوری کارروائی کا تقاضا کرتے ہیں۔ مزید برآںہراسمنٹ انکوائری کمیٹی کی عبوری رپورٹ نے ڈاکٹر طاہر اشرف کے خلاف شکایات پر غور کے بعد انہیں چیئرمین شعبہ بین الاقوامی تعلقات کے عہدے سے روکنے کی سفارش کی ہے جب تک کہ تحقیقات مکمل نہیں ہو جاتیں۔ چونکہ تدریسی شعبوں کے سربراہوں کی تقرری کا معاملہ سینڈیکیٹ کے ذریعہ طے ہوتا ہے اور اس کی میٹنگ جلد متوقع نہیں ہے، لہٰذا موجودہ سنگین صورتحال کے پیش نظر ڈاکٹر طاہر اشرف کو مزید چیئرمین کے طور پر خدمات انجام دینے سے روکا جانا ضروری ہے ۔لہٰذاوائس چانسلر نے فوری طور پر ڈاکٹر طاہر اشرف کو چیئرمین شعبہ بین الاقوامی تعلقات کے عہدے سے ہٹانے کا فیصلہ کیا ہے تاکہ ہراسانی کی سنگینی اور مفادات کے ٹکراؤ کو مدنظر رکھا جا سکے۔ یہ فیصلہ بہاالدین زکریا یونیورسٹی ایکٹ 1975 کے سیکشن 16(3) اور 16(3a) کے تحت حاصل اختیارات کے تحت کیا گیا ہے۔ وائس چانسلر کے عہدے پر فائز شخصیت کی جانب سے پہلی بار اس طرح کا نوٹیفکیشن جاری کیا جانا دال میں کچھ کالا ہے کی نشاندہی کرتا ہے کیونکہ نوٹیفکیشن کے مطابق انکوائری مکمل نہ ہونے کے باوجود سزا کا تصور تعلیمی اداروں میں کام کرنے والے ملازمین کے لیے ایک سوالیہ نشان ہے۔ بہا الدین زکریا یونیورسٹی ملتان کے تمام ملازمین میں یہ بات زبان زد عام ہے کہ وائس چانسلر نے یہ فیصلہ اپنے قریبی مشیروں کے مشورے سے کیا ہے کیونکہ وائس چانسلر ڈاکٹر زبیر اقبال غوری ٹیچرز ایسوسی ایشن کے دباؤ میں آ کر سلیکشن بورڈ کروانا چاہتے ہیں جس کو انٹرنیشنل ریلیشنز کے سربراہ ڈاکٹر طاہر اشرف ہائیکورٹ میں چیلنج بھی کر چکے ہیں جبکہ ہائر ایجوکیشن کمیشن بھی یونیورسٹی انتظامیہ کو منع کر چکی ہے جس کی تفصیلات روزنامہ قوم ملتان شائع کر چکا ہے۔ وائس چانسلر جیسی اہم پوزیشن پر فائز شخصیت کے لیے بغیر مکمل انکوائری سینئر استاد کے خلاف انصاف اور میرٹ کے لئے ہائیکورٹ سے رجوع کرنے کی پاداش میں یہ ایکشن بھی یونیورسٹی اساتذہ کی طرف سے ناقابل فہم گردانا جا رہا ہے۔ اس بارے میں موقف کے لیے بہا الدین زکریا یونیورسٹی ملتان کے پی آر او ڈاکٹر احسن بھٹی سے نوٹیفکیشن اور خبر بھیج کر موقف کے لئے رابطہ کیا گیا کہ وائس چانسلر اپنے اختیارات کا غلط استعمال کرتے ہوئے ایک سینئر ڈیپارٹمنٹ سربراہ کو بغیر انکوائری کیسے ہٹا سکتے ہیں؟ کیا وائس چانسلر کا ان الزامات کی بابت نوٹیفکیشن جاری کرنا ایک جائز عمل ہے؟ کیا یہ نوٹیفکیشن ہائیکورٹ میں دائر سلیکشن بورڈ کیس کی پاداش میں تو نہیں کیا گیا جو کہ یونیورسٹی میںزبان زد عام ہے؟ کیا اس طرح کی کوئی مثال پہلے سے موجود ہے کہ انکوائری سے پہلے ہی سزا دی جائے؟ کیا محترم وائس چانسلر کو ہراسمنٹ ایکٹ کی تفصیلات کا علم ہے؟ کیا ہراسمنٹ ایکٹ میں انکوائری کے طریقہ کار اور سزا کا طریقہ کار استعمال کیا گیا ہے؟ کیا اتنے عرصے تک کام کرنے والے ملازمین کا مستقبل محفوظ ہاتھوں میں ہے کہ بغیر انکوائری ہی ایک پروفیسر کے کیریئر پر دھبہ لگا دیا جائے؟ کیا اس طرح کے نوٹیفکیشن کا اجرا اختیارات سے تجاوز کے زمرے میں نہیں آتا؟ کیا ہراسمنٹ ایکٹ میں کہیں بھی ہراسمنٹ انکوائری کمیٹی کی انکوائری کے طے شدہ طریقہ کار میں عبوری رپورٹ کا بھی کوئی ذکر ہے جس کی بنیاد پر وائس چانسلر کی جانب سے نوٹیفکیشن جاری کیا گیا اور ایسی کیا نوبت آ گئی تھی کہ وائس چانسلر کو اتنی عجلت میں ڈاکٹر طاہر اشرف کے خلاف نامکمل انکوائری کے باوجود نوٹیفکیشن جاری کرنا پڑا؟ کیا ہراسمنٹ انکوائری کمیٹی کو مکمل انکوائری کیے بغیر عبوری رپورٹ وائس چانسلر کو فراہم کرنا انکوائری کمیٹی کی شفافیت کو ظاہر کرتا ہے؟ کیا انکوائری مکمل کیے بغیر عبوری انکوائری رپورٹ کی بنیاد پر فیصلہ کرنا انصاف کے تقاضوں کے مطابق ہے؟ کیا وائس چانسلر کا انکوائری کمیٹی سے انکوائری مکمل کرائے بغیر عبوری انکوائری رپورٹ منگوانا وائس چانسلر اور انکوائری کمیٹی کی ملی بھگت تو نہیں؟ کیا انکوائری کمیٹی کا یہ عمل انکوائری کمیٹی کی شفافیت پر ایک سوالیہ نشان نہیں؟ کیا انکوائری کمیٹی کا یہ عمل ہراسمنٹ ایکٹ کا غلط استعمال تو نہیں؟ ان سوالات پر یونیورسٹی انتظامیہ کے مقرر کردہ پی آر او ڈاکٹر احسن بھٹی کی جانب سے کسی بھی سوال کا کوئی بھی جواب موصول نہ ہو سکا جس پر اس پیشکش کے ساتھ یہ خبر شائع کی جا رہی ہے کہ یونیورسٹی کی طرف سے جب بھی کوئی وضاحت یا موقف موصول ہوا اسے شامل اشاعت کیا جائے گا۔

شیئر کریں

:مزید خبریں