ملتان (سٹاف رپورٹر) ایمرسن یونیورسٹی ملتان میں اپنی برادری اور میرٹ سے ہٹ کر لوگ بھرتی کرنے والے ایمرسن یونیورسٹی ملتان کے لائبریرین کا طویل ملازمتی ریکارڈ رکھتے ہوئے وائس چانسلر بننے والے68 سالہ ڈاکٹر محمد رمضان اور ان کی ٹیم کی قواعد و ضوابط کی پامالی کے مزید انکشافات سامنے آ گئے ہیں اور وائس چانسلر ڈاکٹر محمد رمضان ایمرسن یونیورسٹی ملتان کو لکھے گئے ایک خط میں اس بات کی جانب توجہ دلائی گئی کہ رجسٹرار ڈاکٹر فاروق کی غیر قانونی تقرری نے اس نئی یونیورسٹی کو ترقی کے بجائے زوال کی طرف گامزن کر دیا ہے اور ڈاکٹر محمد فاروق اکثر اس بات کا ذکر کرتے ہیں کہ میں صرف اپنا بڑھاپا سنوارنےکیلئے آیا ہوں۔’’ قوم‘‘ کو ملنے والے انکشافات کے مطابق سرگودھا سے موصول ہونے والی شہادتوں کے عوض ڈاکٹر محمد فاروق منفی ہتھکنڈے استعمال کرنےکے ماہر ہیں ۔ڈاکٹر محمد رمضان گجر کی زیر پر سرپرستی سکیل ایک سے 16 تک کے غیر قانونی سلیکشن کمیٹی کا سربراہ ہو کر اقربا پروری کرنے کے ساتھ ساتھ یونیورسٹی کو بھی لوٹا گیا اور ایسے افراد کو بھی بھرتی کیا گیا ہے جو ایک لفظ بھی ٹائپ نہیں کر سکتے اور اس کے علاوہ کلرک اور کمپیوٹر آپریٹرز کی نہ ہی کوئی سپیڈ ٹیسٹنگ ہوئی ہے اور نہ ہی کوئی ٹائپ ٹیسٹنگ کی گئی ہے۔ ان انکشافات کے مطابق ڈاکٹر محمد فاروق اور ڈاکٹر رمضان گجر کے ایک اور فرنٹ مین سعید ناصر بھی سامنے آگئے ہیں جنہوں نے موجودہ سلیکشن بورڈ کو اپنی شمولیت سے غیر قانونی اور غیر اخلاقی بنا دیا جن کے اپنے دو بھائی محمد اشفاق اور محمد اسحاق امیدوار بھی تھے ۔سعید ناصر اور رجسٹرار ڈاکٹر محمد فاروق نے یہ بات سلیکشن بورڈ کے علم میں نہ دی اور ان کی تعیناتی کی سفارش کرنے کی چپکے سے حامی بھر لی اسلئے سلیکشن بورڈ کو پردے میں رکھ کر اقربا پروری کرتے ہوئے اپنے لوگوں کو تعینات کروانا قانون کی سراسر خلاف ورزی ہے اور یہ خیانت پیڈا ایکٹ کے تحت برطرفی کے زمرے میں آتی ہے۔ ایک اور انکشاف کے مطابق شعبہ انگریزی سے مدثر نامی شخص کچھ فیمیل ٹیچرز کو لیکچرار لگوانے کا لالچ دے کر ورغلانے میں بھی ملوث رہے ہیں۔ ایمرسن یونیورسٹی ملتان کے وائس چانسلر ڈاکٹر محمد رمضان ان تمام تر غیر قانونی کاموں پر پردہ رکھ لیتے ہیں۔ کیونکہ ان کا ساری زندگی صرف لائبریرین کا ہی تجربہ رہا ہے۔ موصوف نے زندگی بھر کوئی کلاس نہیں پڑھائی، چنانچہ سابق گورنر پنجاب کا بحیثیت چانسلر ایک لائبریرین شخص کو بطور وائس چانسلر تعینات کرنا ہائر ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ اور چانسلر آفس پر ایک سوالیہ نشان ہے ۔ اس سلسلے میں جب یونیورسٹی کے پی آر او ڈاکٹر محمد نعیم سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے کوئی جواب نہ دیا ۔
