عالمی عدالت انصاف نے مظلوم فلسطیینوں کے حق میں فیصلہ دیکرحق کاساتھ دیاہے۔وحشی اسرائیل کومنہ کی کھانی پڑی ہے۔گزشتہ روزاپنےتاریخی فیصلے میںعالمی عدالت انصاف نے اسرائیل کو غزہ میں نسل کشی روکنے کے لیے اقدامات کرنے کا حکم دیدیاہے۔غزہ پر کئی ماہ سے جاری اسرائیلی جارحیت کے بعد اسرائیل کے خلاف نسل کشی کا یہ مقدمہ جنوبی افریقہ نے دائر کیا تھا، جس کی سماعت کا آغاز 11 جنوری کو ہوا تھا۔عالمی عدالت انصاف نے جمعے کو اسرائیل کو حکم دیا ہےکہ وہ غزہ میں نسل کشی روکنے، نسل کشی پر براہ راست اکسانے کا عمل روکنے اور اس ضمن میں سزا دینے کے لیے اقدامات کرے۔نیدرلینڈز کے شہر دا ہیگ میں واقع عالمی عدالت انصاف نے اسرائیل کے خلاف دائر فلسطینیوں کی نسل کشی کے مقدمے پر ایمرجنسی اقدامات پر فیصلہ دیتے ہوئے کہا کہ اسرائیل پر عالمی سطح پر قانونی ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں۔عالمی عدالت انصاف میں فیصلہ سناتے ہوئے بینچ کی صدر اور امریکہ سے تعلق رکھنی والی جج جون ای ڈوناہیو کا کہنا تھا کہ ’غزہ میں جاری انسانی جانوں کے ضیاع پر گہری تشویش ہے۔‘عالمی عدالت نے فیصلے میں کیس سننے کی اہلیت کے حوالے سے کہا کہ اسرائیل کے ہاتھوں نسل کشی کے مقدمے میں ہنگامی اقدامات کے بارے میں فیصلہ کرنے کا اختیار عالمی عدالت کے پاس ہے۔عالمی عدالت انصاف نے کہا کہ اسرائیل کی درخواست، کہ کیس کو خارج کیا جائے، کو نہیں مانا گیا اور مقدمہ آگے چلے گا۔فیصلے میں مزید کہا گیا کہ بظاہر ’نسل کشی کے خلاف کنونشن کے تحت فلسطینی شہری محفوظ گروپ لگتے ہیں۔۔۔اسرائیل کو یہ یقینی بنانا ہے کہ نسل کشی نہ کی جائے۔‘عدالت نے کہا کہ کہ اسرائیل ایک مہینے میں رپورٹ جمع کرائے گا جس میں فیصلے میں جاری احکام پر تفصیل پیش کی جائے گی۔سماعت کا آغاز ہوا تو بینچ کی صدر جون ای ڈوناہیو نے بتایا کہ 17 رکی بینچ میں سے ایک جج اس وقت اپنی نشست پر موجود نہیں ہیں۔ جنوبی افریقہ نے عالمی عدالت انصاف کے حکمنامے کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا کہ ’آج عالمی قانون کی عملداری کی فیصلہ کن فتح کا دن اور فلسطین کے لوگوں کے لیے انصاف کی تلاش میں اہم سنگ میل ہے۔‘حماس نے عالمی عدالت کے فیصلے کا خیرمقدم کرتے ہوئے اسے ’اہم‘ قرار دیا ہے۔ حماس کا کہنا ہے کہ اس سے ’اسرائیل تنہا ہو گا‘ اور غزہ میں اس کے جرائم سامنے آئیں گے۔ فلسطین نے بھی عالمی عدالت کے حکم کا خیرمقدم کیا ہے۔ فلسطین کے وزیر خارجہ ریاض المالکی نے جمعے کو ٹیلی ویژن پر نشر ہونے والے بیان میں کہا ہے کہ ’عالمی عدالت انصاف کے ججوں نے حقائق اور قانون کا جائزہ لیا۔ انہوں نے انسانیت اور عالمی قانون کے حق میں فیصلہ دیا۔‘ان کا کہنا تھا کہ ’قابض طاقت اسرائیل سمیت‘ تمام ممالک وہ ان اقدامات پر عملدرآمد یقینی بنائیں جن کا عالمی عدالت نے حکم دیا ہے۔غزہ پر کئی ماہ سے جاری اسرائیلی جارحیت کے بعد اسرائیل کے خلاف نسل کشی کا یہ مقدمہ جنوبی افریقہ نے دائر کیا تھا، جس کی سماعت کا آغاز 11 جنوری کو ہوا تھا۔ابتدائی سماعت میں جنوبی افریقہ کے نمائندوں کو دلائل کا موقع فراہم کیا گیا، جس کے دوران اسرائیل پر اقوام متحدہ کے نسل کشی کنونشن کی خلاف ورزی کا الزام عائد کرتے ہوئے کہا گیا کہ حماس کی سات اکتوبر کی کارروائی بھی فلسطینیوں کی نسل کشی کا جواز پیش نہیں کر سکتی۔عالمی عدالت انصاف میں اس کیس کی سماعت دو روز تک جاری رہی، جس کے دوسرے دن اسرائیل کو بھی دفاع کا موقع فراہم کیا گیا کہ وہ اپنا موقف پیش کرے۔اسرائیل نے خلاف نسل کشی کے مقدمے کو ’انتہائی مسخ شدہ‘ اور ’بدخواہی‘ پر مبنی قرار دیتے ہوئے کہا کہ وہ فلسطینی عوام کو تباہ کرنے کی کوشش نہیں کر رہا۔دوسری جانب اسرائیل اور اس کے اتحادی امریکہ نے اس مقدمے کو بے بنیاد قرار دے کر مسترد کر دیا اور عالمی عدالت میں مضبوط دفاع کا عزم ظاہر کیا۔خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق اس مرحلے پر عالمی عدالت انصاف صرف یہ فیصلہ کرے گی کہ آیا اسرائیل پر ہنگامی احکامات (عدالت کی اصطلاح میں عارضی اقدامات) نافذ کیے جا سکتے ہیں یا نہیں۔اسرائیل غزہ میں نسل کشی کر رہا ہے یا نہیں، اس بارے میں فیصلہ طریقہ کار کے دوسرے مرحلے کے لیے ہو گا اور اس میں برسوں لگ سکتے ہیں۔یونیورسٹی آف ساؤتھ آسٹریلیا میں بین الاقوامی قانون کی لیکچرر جولیٹ میکانٹائر نے اے ایف پی کو بتایا کہ اس مرحلے پر جنوبی افریقہ کو یہ ثابت کرنے کی ضرورت نہیں ہے کہ اسرائیل نسل کشی کا ارتکاب کر رہا ہے، انہیں صرف یہ ثابت کرنے کی ضرورت ہے کہ نسل کشی کا ممکنہ
خطرہ ہے۔انہوں نے مزید کہا: ’یہاں تک کہ اگر عدالت اسرائیل کے خلاف فیصلہ دیتی ہے تو بھی اس کا مطلب یہ ہو گا کہ نسل کشی کا ممکنہ خطرہ ہے۔ یہ نہیں کہ نسل کشی ہو رہی ہے۔‘جنوبی افریقہ نے عالمی عدالت سے کہا ہے کہ وہ اسرائیل پر نو احکامات نافذ کرے، جس میں فوری طور پر فوجی سرگرمیاں معطل کرنا اور مزید انسانی رسائی کو ممکن بنانا شامل ہے۔عدالت تمام نو احکامات کا حکم دے سکتی ہے یا ان میں سے کوئی بھی نہیں یا مکمل طور پر مختلف احکامات بھی صادر کر سکتی ہے۔لیڈن یونیورسٹی میں عوامی بین الاقوامی قانون کی اسسٹنٹ پروفیسر سیسلی روز نے کہا: ’ایسا لگتا ہے کہ عدالت جنوبی افریقہ کی طرف سے استدعا کی گئیں کچھ درخواستوں کو منظور کر لے گی۔ اسرائیل نے سماعتوں کے دوران دلیل دی کہ جنگ بندی غیر حقیقی ہے کیونکہ عدالت صرف ایک فریق کو حکم دے سکتی ہے جیسا کہ حماس اس عدالتی کارروائی کا حصہ نہیں ہے۔‘ایک اور ماہر قانون میک انٹائر نے کہا: ’عدالت جنگ بندی کا حکم دے سکتی ہے، لیکن میری رائے میں زیادہ امکان یہ ہے کہ اسرائیل سے ایسے اقدامات کا کہا جائے تاکہ مناسب خوراک، پانی اور انسانی امداد تک رسائی کو یقینی بنایا جا سکے۔‘اہم بات یہ ہے کہ آیا اسرائیل عالمی عدالت کے کسی ممکنہ فیصلے کی پاسداری کرے گا۔ اسرائیلی وزیراعظم بن یامین نتن یاہو پہلے ہی اشارہ دے چکے ہیں کہ وہ عدالت کے پابند نہیں ہیں۔تاہم میک انٹائر نے کہا کہ اسرائیل کے ردعمل سے قطع نظر اس فیصلے کے اہم اثرات مرتب ہوں گے۔ان کے بقول: ’اگر عدالت یہ فیصلہ کرتی ہے کہ نسل کشی کا ’خطرہ‘ ہے تو اس سے دوسرے ممالک کے لیے اسرائیل کی حمایت جاری رکھنا بہت مشکل ہو جاتا ہے۔ عالمی برادری اسرائیل کی فوجی یا دیگر حمایت واپس لے سکتی ہیں۔‘رکن ممالک عالمی عدالت انصاف کے احکام پابند ہیں لیکن اس کے پاس ان کو نافذ کرنے کی طاقت نہیں ہے اور کچھ ریاستیں انہیں مکمل طور پر نظر انداز کرتی ہیں، مثال کے طور پر روس نے یوکرین پر حملے روکنے کا حکم نظر انداز کر دیا تھا۔آخر میں اس کا ایک علامتی پہلو بھی ہے جس کے پیش نظر اسرائیل اخلاقی حمایت کھو سکتا ہے۔یاد رہے کہ 29 دسمبر 2023 کو جنوبی افریقہ نے غزہ میں فلسطینیوں کے خلاف نسل کشی کے جرائم کا الزام عائد کرتے ہوئے عالمی عدالت انصاف سے رجوع کیا تھا اور اسرائیل کے خلاف درخواست دائر کی تھی۔درخواست میں جنوبی افریقہ نے غزہ میں اسرائیل کے اقدامات کو ’نسل کشی‘ قرار دیا، جنوبی افریقہ کا کہنا تھا کہ اسرائیل کا مقصد فلسطینی قوم اور نسل کو تباہ کرنا ہے۔درخواست میں کہا گیا تھا کہ ’اسرائیل کی غزہ میں کارروائیوں کا مقصد فلسطینیوں کو قتل کرنا، انہیں شدید جسمانی اور ذہنی اذیت پہنچانا ہے۔‘دوسری جانب اسرائیل کے فلسطینیوں پر مظالم پر دنیا کا دہرا معیار سامنے آ چکا ہے، وہی مغرب جو یوکرین روس کی جنگ میں تو روس کی مذمت کرتے نہیں تھکتا اور پوری دنیا پر زور ڈال رہا ہے کہ یوکرین روس جنگ میں یوکرین کی مالی و عسکری نہیں تو کم از اخلاقی مدد تو ضرور کی جائے لیکن جب فلسطین کی باری آتی ہے تو یہی مغرب جو مظلوم کا ساتھی ہونے کا دعویدار ہے اس کا دوغلا پن ظاہر ہوتا ہے کہ فلسطین پر اسرائیل دن رات بمباری کر رہا ہے، معصوم بچوں کو شہید کر رہا ہے، غزہ اس وقت مکمل طور پر اسرائیلی بمباری سے زمین بوس ہو چکا ہے،سینکڑوں نہیں ہزاروں لوگ اسرائیلی بمباری سے شہید ہو چکے ہیں، ہسپتال مردہ خانوں میں بدل گئے ہیں، خواتین اور بچوں کی کوئی تخصیص نہیں ہے ۔ہر ایک کو اسرائیل ظلم کا نشانہ بنا رہا ہے اور اتنا ظلم ڈھانے کے باوجود امریکہ اور یورپ کی نظر میں فلسطینی ظالم اور اسرائیلی مظلوم ہیں، مغرب جو خود کو آزادی رائے کا چیمپئن قرار دیتا ہے اس کے اکثر ممالک میں فلسطین کی حمایت میں احتجاج کرنے اور اسرائیل کو ظالم کہنے پر پابندی لگا دی گئی ہے جو اس بات کا مظہر ہے کہ اس وقت مغرب حقیقی معنوں میں ظالم کا ساتھی ہے اور یہ مغربی دنیا کی شہ ہے جس کی وجہ سے لاہور سے بھی چھوٹا اسرائیل سانپ بن کر پھنکار رہا ہے اور مشرق وسطی کا نقشہ بدلنے کی دھمکیاں لگا رہا ہے۔اس کے حملے سے ایک بات تو واضح ہو گئی ہے کہ اسرائیل ناقابل تسخیر نہیں ہے،حماس نے جس طرح اسرائیل کی ٹیکنالوجی کو شکست دی اور جس طرح اس کی ناک کے نیچے سے اسرائیل پر حملہ آور ہوا ہے اس نے اسرائیل کو بوکھلا یا تو ہے ہی اس کے ساتھ ان کے دفاع کی کمزوریاں بھی سامنے آ گئی ہیں۔اب چونکہ اسرائیل مغرب کی شہ پر بپھرا ہوا سانڈ بنا ہوا ہے اس کے ہاتھ روکنے کی اشد ضرورت ہے،کیوں کہ اسرائیل نے غزہ کی دس فٹ چوڑی اور چالیس میل لمبی پٹی کو ایک کھلے زنداں میں بدل دیا ہے جس کو چاروں جانب سے بند کر کے نہ تو انہیں غزہ کی پٹی سے نکلنے دیا جا رہا ہے اور نہ ہی انہیں خوارک اور میڈیکل کی سہولیات فراہم کرنے کی اجازت دی جا رہی ہے۔پاکستان سمیت دنیا بھر میں فلسطینیوں کے حق میں مظاہرے بھی ہو رہے ہیں اور مسلم حکمران اسرائیل کے اس عمل کی مذمت بھی کر رہے ہیں لیکن اب اس جنگ کو روکنا ہو گا اور اس وقت سعودی عرب کے ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان اس حوالے سے کافی متحرک ہیں اور ان سے ترکی، ایران سمیت بہت سے مسلم ممالک کے سربراہان نے رابطےبھی کئے ہیں۔شہزادہ محمد بن سلمان نے کہاتھا کہ وہ جنگ رکوانے کیلئے ہر حربہ آزمائیں گے۔امریکہ نے اس معاملے پر سعودی عرب کو اپنا ہمنوا بنانے کی کوشش کی اور حماس اور سعودی عرب کے اختلافات کو بنیاد بنا کر امریکہ نے سوچا کہ یہی موقع ہے سعودی عرب سے حماس کی مذمت کی آڑ میں اس حملہ کا جواز بنایا جائے لیکن شہزادہ محمد بن سلمان نے ایسا کرنے سے صاف انکار کر دیا ۔ امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن کچھ عرصہ قبل جب شہزادہ محمد بن سلمان سے ملنے ان کے محل پہنچے تو شہزادہ محمد بن سلمان نے انہیں ملاقات کیلئے گھنٹوں انتظار کرایا اور جب ملاقات ہوئی تو امریکی وزیر خارجہ نے شہزادہ محمد بن سلمان سے کہا کہ وہ حماس کی مذمت نہیں کریں گے اور اگر امریکہ اس معاملے کو سلجھانا چاہتا ہے تو سب سے پہلے اسرائیلی بمباری بند کرائے اور اس کے بعد اس معاملے پر بات ہو گی۔ اس وقت سب سے پہلا کام جنگ روکنا ہے تا کہ اسرائیل کی ظالمانہ بمباری سے فلسطینیوں کو بچایا جا سکے اور اس کام کیلئے امت مسلمہ کو ایک ہونا ہو گا جس طرح مغرب اسرائیل کی حمایت میں سامنے آیا ہے ایسے ہی مسلم ممالک کو اپنے اختلافات بالائے طاق رکھتے ہوئے فلسطین کی حمایت میں ایک ہونا ہو گا تاکہ اسرائیل کو یہ پیغام پہنچ جائے کہ فلسطینی اکیلے نہیں ہیں۔اوآئی سی کوبھی اس حوالے سے عملی اقدامات کااعلان کرناچاہئے۔رسمی قراردادوں سے مشرق وسطیٰ میں امن نہیں آسکتا۔اوآئی سی کی کمزوری کی وجہ سے دنیابھرمیں مسلمان پس رہے ہیں۔
