تحریر؛میاں غفار (کارجہاں)
ملتان میں خوشگوار تبدیلی اچانک دیکھنے کو مل رہی ہے۔ اچانک سینٹری ورکرز اور کوڑا اٹھانے والی ٹیمیں نہ جانے کہاں سے سڑکوں پر نکل روزانہ صبح اور بعض اوقات دوپہر میں بھی کال میں مصروف دکھائی دیتی ہیں۔ دہائیوں کے تنگ راستے بعض مقامات پر حیرت انگیز طور پر کھل گئے ہیں۔ ابھی تو کسی اعلی حکومتی شخصیت کا دورہ بھی نہیں کہ دو تین روزہ کاروائی دیکھنے کو ملے اور دورہ ختم ہوتے ہی سابقہ روٹین بحال۔ یہ روزانہ کی تبدیلی ہضم نہیں ہو رہی۔ ہم تو ٹوٹی سڑکوں، ابلتے گٹروں، گندگی کے ڈھیروں اور اڑتی گرد کو نسلوں سے قبول کے چکے تھے اب اگر یہ کوچہ کاچی کوچ کہ گئی تو ہم زیادہ تنگ ہوں گے۔ کہتے ہیں کہ مقامی لوگ کم ہی تبدیلی لایا کرتے ہیں کہ وہ اوائل عمری ہی سے جس ماحول میں رہتے ہیں اس کے عادی ہو چکے ہوتے ہیں اور ماحول تبدیل نہیں ہونے دیتے۔یہ بھی کہا جاتا ہے کہ تبدیلیاں ہجرت کرنے والے لاتے ہیں۔ جھنگ میں میرے ایک دوست مہر منظور کاٹھیا جن کا انتقال ہو چکا ہے کے والد مہر محمود کاٹھیا نے ایک مرتبہ بتایا کہ ہم نے بہت سی سبزیوں کے ذائقے 1947 کے بعد تب چکھے جب مہاجر آئے اور انہوں نے مختلف اقسام کی سبزیاں اور فصلیں کاشت کی۔ وہ بتاتے تھے کہ میں نے پہلی مرتبہ کریلے گوشت ایک مہاجر خاندان کے گھر کھایا اور مجھے زندگی بھر اس کا ذائقہ نہیں بھولا۔ تبدیلی کے بارے میں دوسرا نظریہ یہ ہے کہ کسی بھی نئے آنے والے کے پہلے پندرہ، بیس دنوں کے اقدامات ہی سے پتہ چل جاتا ہے کہ وہ کیسے کام کرے گا اور کس طرح سے کاروبار زیست چلائے گا۔ ٹرمپ کی تازہ ترین مثال سامنے کی بات ہے۔ عمران خان جب اقتدار میں لائے گئے تو ایک خوف تھا کہ وہ بہت کچھ بہتر کردیں گے اور وہ بندہ تن کے رکھ دے گا۔ خوف اتنا تھا کہ سیاست دانوں، سرکاری افسران کے گھروں، ڈیروں اور زمینوں پر خدمات سر انجام دینے والے بلدیاتی اداروں سمیت مختلف صوبائی محکموں کے ورک چارج، عارضی و پکے نچلے درجے کے ملازمین ہزاروں کی تعداد میں صوبہ بھر کے مختلف محکموں میں واپس بھجوا دیئے گئے تھے۔
جنوبی پنجاب کے ایک ضلع کے ایک سابق ایم این اے کے گھر سے سالہا سال بعد 22 سرکاری ملازمین اپنے اپنے محکموں میں عمران خان کے حلف اٹھانے کے اگلے ہی دن ڈیوٹیوں پر پہنچ چکے تھے۔ پنجاب کے تمام اضلاع میں صورتحال یہ تھی کہ ہزاروں نئے چہرے ’’نویں پروہنے‘‘ بن کر اپنے اپنے متعلقہ افسران کو رپورٹ دے کر ذمہ داریاں پوچھ رہے تھے مگر یہ ماحول صرف دو ہفتے رہا۔ ادھر شہد کی بوتلوں تحائف کی سیاست کرنے والے سردار عثمان بزدار وزیراعلیٰ بنے اور ادھر ہر طرف گرین سگنل ہو گیا اور تمام کے تمام سرکاری تنخواہیں لے کر سیاست دانوں کے ڈیروں پر ڈیوٹیاں دینے والے واپس اپنی اپنی سالہا سال پرانی ذمہ داریاں سنبھال چکے تھے کہ سب اچھا کا میسج چل چکا تھا ’’سکون کریں کچھ نہیں بدلا‘‘ صرف پرانی فلم شرطیہ نئے پرنٹوں کے ساتھ لانچ ہوئی ہے‘‘ کہانی نہیں بدلے گی اور یہی طور طریقے چلیں گے پھر چلے بھی رہے اور پوری آب و تاب سے چلتے رہے۔
گزشتہ ایک ماہ میں اور کوئی ہو نہ ہو مگر میں بہت پرامید ہوں ۔میں نے پہلی مرتبہ ملتان میں تیز تر تبدیلی دیکھی ہے اور اس شہر میں 28 سالہ آنیوں جانیوں کے دوران میں پہلی مرتبہ جس خوشگوار احساس سے گزر رہا ہوں وہ یہ ہے کہ ابھی کار سرکار میں خاطر خواہ سیاسی مداخلت نظر نہیں آ رہی ورنہ سیاسی ہاتھ سرکار کی کار پہلے گیئر ہی میں روک دیا کرتے تھے۔ سمجھ ہی نہیں آ رہا کہ یہ تنگ اور تاریک بازاروں میں وسعت کہاں سے آ گئی ہے۔ اوپر سے اب اس شہر میں دیگر شہروں کی طرح اختیاراتی بدتمیزی بھی دیکھنے کو نہیں مل رہی اور مجھے ابھی تک تو بہت حد تک انتظامی اور عوامی ہم آہنگی نظر آ رہی ہے۔ اب معلوم نہیں کہ عوامی نمائندے بدلے ہیں یا انتظامیہ عوام دشمنی سے عوام دوستی کی طرف روانگی اختیار کر چکی ہے۔ ایک بات طے شدہ ہے کہ عوام کی کچھ کچھ سنی جا رہی ہے اور عوام غبار بھی نکالے تو اسے حق دیا جاتا ہے۔ ویسے بھی ہمارے استاد محترم کہا کرتے تھے بحیثیت قوم ہم سناتے زیادہ اور سنتے کم ہیں۔ وہ ایک جملہ کہا کرتے تھے We are bad Listner ، مگر اب سنی جا رہی ہے اور نہ صرف سنی جا رہی ہے بلکہ عمل بھی ہو رہا ہے اور ہوتا ہوا دکھائی بھی دے رہا ہے۔
ملتان میں ایل پی جی باؤزرز میں Co2 کی ملاوٹ کے دوران ہونے والے دھماکے اور انسانی جانوں کو ضیاع کے بعد جس طرح کے اقدامات انتظامیہ کی طرف سے نظر آئے، اتنی ہی بری ایف آئی آر پولیس کی طرف سے درج کی گئی اور ایف آئی آر کا متن چیخ چیخ کر بتا رہا تھا کہ مقامی پولیس کو نہ صرف اس ملاوٹ مافیا کا علم تھا بلکہ پولیس اہلکار باقاعدگی سے وہاں قیام و طعام کرتے تھے ۔طعام کا کوانٹم کتنا بھاری تھا وہ ایف آئی آر کے بھدے پن ہی سے عیاں ہو گیا ۔اس واقعے پر جس طرح کمشنر ملتان عامر کریم خا ن نے معلومات جمع کی اور جس طرح جائے وقوعہ سے لے کر برن یونٹ تک ہر مرحلے پر عقابی نظر رکھی، جس طرح رپورٹ مرتب کرکے اسلام آباد میں انکوائری کمیٹی کو پیش کی، جس طرح موقع پر متاثرین کیلئے سرکاری عملہ 24 گھنٹے ڈیوٹی دیتا رہا ،پھر جس طرح سول ڈیفنس کی گوشمالی کی گئی ۔جس طرح غیر معیاری سلنڈروں کی فروخت کرنے والوں کے گرد شکنجہ تنگ کیا گیا۔ میں اس ایک ایک مرحلے بارے آگاہ ہوں اور اس واقعہ کے بعد کی فوری کارروائی نے کمشنر آفس کی فعالیت بارے سالہا سال سے ایک واقعہ کے بعد میرے دماغ میں گھر کی ہوئی منفی تاثر کی سلیٹ کسی حد تک صاف کر دی ۔
ہوا یوں کہ ملتان میں ناصر کھوسہ کمشنر تھے۔ ملتان کی ایک جیل سے رہا ہونے والے قیدی نے رہائی کے بعد گھر جانے کے بجائے میرے دفتر آ کر مجھ سے علیحدگی میں ملاقات کی اور بتایا کہ جیل کے ایک آفیسر کے جیل کی حدود میں واقع سرکاری رہائش گاہ میں فرنیچر کا کام ہو رہا ہے اور جیل سے ایک پنجہ روزانہ صبح انکی رہائشگاہ پر جاتا ہے اور شام چار بجے واپس آتا ہے۔ وہ جیل کے اندر بند خطرناک قیدیوں کے پیغامات باہر لے کر جاتے ہیں اور پھر ان کے جوابات کبھی چند دن بعد لے کر آتے ہیں اور کبھی جیل میں تعویذ لکھے ہوئے انہیں ملتے ہیں جس پر خاص سیاہی سے پوری تحریر لکھی جاتی ہے جو استری سے گرم کر کے پڑھی جاتی ہے۔ پنجہ ان پانچ قیدیوں کے گروپ کو کہتے ہیں جو جیل سے مزدوری کیلئے سرکاری افسران کی رہائش گاہوں پر جاتے ہیں۔ 20 سال قبل لاہور کی جی او آر میں بھی کیمپ جیل سے کئی پنجے کوٹھیوں پر کام کرنےکیلئے جایا کرتے تھے۔ وہ مجھے جس قسم کی کہانیاں سناتے تھے وہ ایک علیحدہ موضوع ہے جس پر پھر کبھی لکھوں گا۔ ابھی موضوع پر رہتے ہیں۔
وہ پنجہ لکڑی کے بچے کچھے ٹکڑے جیل کی چاردیواری سے باہر پھینکتے تھے جنہیں گھوم پھر کر ردی اور پلاسٹک اکٹھے کرنے والے لڑکوں کے روپ میں ایک شخص آ کر لے جاتا تھا۔ یہ ان دنوں کی بات ہے جب دہشت گردی عروج پر تھی اور مذہبی گروہ آپس میں قتل و غارت کا بازار گرم کئے ہوئے تھے میں نے کافی سوچ بچار کے بعد فیصلہ کیا کہ اس وقت کمشنر ملتان ناصر کھوسہ سے بہتر کون ہو سکتا ہے۔ لہٰذا میں نے فون پر ان سے وقت لیا اور ابدالی روڈ پر واقع کمشنر ہاؤس جو اب کارڈیالوجی ہسپتال بن چکا ہے، میں ان سے ملنے چلا گیا۔ انہیں تمام تر صورتحال سے آگاہ کیا اور انہوں نے نہ صرف توجہ سے بات سنی بلکہ نوٹس بھی لئے۔ اگلے ہی روز صبح 10 بجے اسی رہائی پانے والے کا فون آیا اور مجھ سے پوچھنے لگا کہ آپ نے وہ معلومات کس کو دی ہیں۔ وہ خاصا پریشان تھا اور تیز تیز بول رہا تھا۔ کہنے لگا کہ آپ کی انفارمیشن لیک ہو گئی ہے۔ صبح آٹھ بجے حسب معمول پنجہ جیل سے ہتھکڑیوں میں مذکورہ صاحب کی کوٹھی پر لایا گیا مگر صرف 40 منٹ بعد ہی سپاہیوں کے حصار میں بھاگتا ہوا جیل میں واپس چلا گیا۔ وہ استفسار کرتا رہا کہ میں نے کس کو انفارمیشن دی ہے یا پھر۔۔۔۔۔ یہ کہہ کر وہ خاموش ہو گیا اور اس نے فون بند کر دیا۔ میں نے اسی وقت ناصر کھوسہ کو فون کیا مگر ان کے پاس کوئی تسلی بخش جواب نہ تھا۔ پھر مجھے اس کوتاہی پر کسی کے خلاف کوئی کارروائی بھی ہوتی ہوئی دکھائی نہ دی تو میں یہ تو کر ہی سکتا تھا کہ آئندہ اعتماد نہ کروں۔ (جاری ہے)