وفاقی دارالحکومت میں میڈیا نمائندوں کو بریفنگ دیتے ہوئے وفاقی وزیر برائے پاور ڈویژن اویس لغاری نے بجلی کے شعبے کے اہم اقدامات اور درپیش چیلنجز پر تفصیل سے روشنی ڈالی۔ وزیر توانائی نے بتایا کہ 36 آئی پی پیز کے ساتھ مذاکرات کے ذریعے 3,696 ارب روپے کی بچت ہوئی ہے، جو کہ آنے والے سالوں میں صارفین کے لیے ریلیف کا باعث بنے گی۔
وفاقی وزیر نے کہا کہ بجلی کے شعبے کا سب سے بڑا چیلنج پیداواری لاگت ہے، جس میں ٹیرف میں اضافے اور 2,400 ارب روپے کے گردشی قرضے نے مشکلات بڑھا دی ہیں۔ ڈسکوز کی ناقص کارکردگی اور کوآرڈینیشن کی کمی بھی ایک بڑا مسئلہ ہے، جب کہ بجلی کی طلب میں مسلسل کمی نے شعبے کی کارکردگی کو متاثر کیا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ٹرانسمشن لائنز کے نقصانات کی وجہ سے بجلی کی قیمت میں 1 سے 2 روپے کا اضافہ ہوتا ہے، جسے کم کرنے کے لیے منصوبہ بندی کی جارہی ہے۔
وزیر توانائی نے بتایا کہ 1.89 کروڑ صارفین (جو 100 یونٹس تک بجلی استعمال کرتے ہیں) کے لیے بجلی کی قیمت میں 6 روپے 14 پیسے کی کمی کی گئی ہے، اور مجموعی طور پر ان کے نرخوں میں 56 فیصد تک کمی کی گئی ہے۔
اویس لغاری نے کہا کہ 6 سال کے اندر گردشی قرضے کو ختم کیا جائے گا اور آئندہ سالوں میں اسے زیرو پر لایا جائے گا۔ اس کے علاوہ، تمام بجلی کے میٹرز کو آٹومیٹڈ سسٹم سے تبدیل کیا جائے گا۔ آئیسکو، فیسکو اور گیپکو کی نجکاری کا عمل جاری ہے، اور دوسرے مرحلے میں لیسکو، میپکو اور ہزیکو کی نجکاری کی جائے گی۔ وفاقی وزیر نے یہ بھی بتایا کہ 27,000 ٹیوب ویلز کو 7 ماہ میں سولر انرجی پر منتقل کر دیا جائے گا۔
سی پیک کے تحت چائنیز پلانٹس میں کوئلے سے بجلی کی پیداوار پر توجہ دی جائے گی۔ وزیر توانائی نے مزید بتایا کہ جولائی سے دسمبر تک ڈسکوز کے نقصانات کا ہدف 303 ارب روپے تھا، لیکن 145 ارب روپے کی بچت کرتے ہوئے نقصانات 158 ارب روپے تک محدود رہے۔ گردشی قرضے کے شعبے میں 9 ارب روپے کی بچت کی گئی ہے۔بریفنگ میں انہوں نے کہا کہ حکومت مہنگی بجلی خریدنے کے بجائے مستقبل کے لیے پائیدار حل تلاش کر رہی ہے۔ 10 سالہ الیکٹرک پالیسی کے تحت بجلی کے شعبے کو مستحکم کرنے کے لیے جامع منصوبہ بندی کی جا رہی ہے۔